Topics

جولائی1992؁۔اس صدی کا سائنسدان

سائنسی علوم اور سائنسی ایجادات کی جس طرح تشہیر کی جا رہی ہے اس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ اب سے پہلے نہ تو سائنسی علوم تھے اور نہ ہی ایجادات کا مظاہرہ ہوتا تھا جبکہ یہ ساری دنیا دراصل علم کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

                دو ہزار چھ عیسوی کے بعد جب یہ دنیا ٹوٹ پھوٹ کر زیر آب آ جائے گی اور جہاں پانی ہے وہ خشکی پر آبادی بن جائے گی اور اس دنیا کے باسی نئے نئے علوم کا انکشاف کریں گے تب بھی یہی کہا جائے گا کہ یہ دور سائنس کا دور ہے۔ ایجادات کا دور ہے اور نئے نئے علوم کا دور ہے۔

                تاریخ دراصل زمین کے اوپر ہونے والے ہر عمل، ہر تبدیلی خواہ تعمیر ہو یا تخریب کی ایک دستاویز ہے۔ انسان جو لاکھوں سال پہلے تھا آج بھی ہے۔ درخت اور ان کے اوپر سے اترنے والے پھل ہزاروں سال پہلے بھی تھے آج بھی ہیں۔ سائنسی ایجادات جو ہمارے سامنے ہیں ماضی میں بھی تھیں۔ گزرے ہوئے زمانے میں جس سواری کو اڑن کھٹولہ کہا جاتا تھا اب ہم اسے ہوائی جہاز کہتے ہیں۔ علی ہذا القیاس یہ ساری ایجادات و انکشافات ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ ان کی تشریح اس طرح کی جاتی ہے کہ جیسے یہ آج کی نسل کا کارنامہ ہے۔

                پندرہ سو سال پہلے نوع انسانی کے جوہر کائناتی تخلیق رموز کے ماہر اللہ کے محبوب ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں جو باتیں بتا دیں تھیں……

                اس صدی کا سائنسدان ان باتوں کو اپنی بات کہہ کر اپنی برتری جتانے پر مصر ہے۔

                سائنس کہتے ہے کہ:

                کائنات کی تشکیل ایسے گیسی مادے سے ہوئی تھی جو ہائیڈروجن اور ہیلیم سے مرکب تھا۔ اسی گیس کے مرکب یا دھوئیں سے کائنات بن رہی ہے۔

                ایک ہزار پانچ سو سال قبل کائنات کے سب سے بڑے اور اعلیٰ سائنسدان محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

                ’’پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اس وقت محض دھواں تھا اس نے آسمان اور زمین سے کہا وجود میں آ جائو خواہ تم چاہو یا نہ چاہو دونوں نے کہا ہم آ گئے فرمانبرداروں کی طرحo(القرآن)

                پندرہ سو سال کے بعد سائنس بتاتی ہے کہ تمام جاندار اشیاء اور اشیاء میں خلیات کا جزو سم پانی ہے اور پانی کے بغیر زندگی ممکن نہیں ہے۔

                قرآن کریم ڈیڑھ ہزار سال پہلے کائناتی تسخیری فارمولے بیان کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کرتا ہے:

                اور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز کو پیدا کیاo

                اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیاo

                منکشف کیا گیا کہ حیوانات اور انسان کی طرح ہر شئے کی تخلیق نر اور مادہ سے ہوئی ہے۔ نباتات میں بھی ہر شئے جوڑے جوڑے ہے……

                لوگ اس انکشاف پر چونک اٹھے کہ یہ ایک نیا اور نرالا انکشاف ہے کہ نباتات میں بھی مذکر اور مونث دو رخ ہوتے ہیں۔

                پندرہ سو سال پہلے پروردگار عالم نے اپنے محبوب بندے صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ علم سکھایا:

                پس ہم نے زمین میں پودوں اور نباتات کے اچھے جوڑے لگائے اسی نے ہر طرح کے پھلوں کے جوڑے پیدا کئے پاک ہے وہ ذات جس نے کل اقسام کے جوڑے پیدا کئے خواہ وہ زمین کے نبادات سے ہو یا خود ان کی اپنی جنس نوع انسانی میں ہو یا ان اشیاء میں ہوں جن کو وہ جانتے نہیں۔

                سائنسدانوں نے دریافت کیا کہ نباتات پر پانی ڈالنے سے ایک سبز رنگ کا مادہ پیدا ہوتا ہے جسے کلوروفل (Chlorophyll) کہتے ہیں۔

                پندرہ سو سال پہلے ایک ایسے مقام پر جہاں جہالت کا دور دورہ تھا اور کوئی اس وقت سائنس کے نام سے واقف نہیں تھا۔

                اللہ نے اپنے بندے صلی اللہ علیہ و سلم کو بتایا:

                وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا اور اس کے ذریعے نباتات میں سے ہر چیز پیدا کی اور اس میں سبز مادہ (chlorophyll) پیدا کیا جس کے ذریعے سے ہم دانوں کے ڈھیر پیدا کر لیتے ہیں۔

                ہوائی جہاز کی ایجاد کے بعد معلوم ہوا کہ چالیس ہزار فٹ کی بلندی پر Oxygenکم ہو جاتی ہے اور سانس لینے میں دقت ہوتی ہے۔

                پندرہ سو سال پہلے ہوائی جہاز تو نہیں تھا لیکن کائنات کے سب سے اعلیٰ، سب سے افضل، غیب و شہود اور روحانی علوم کے برگزیدہ سائنسدان کو یہ بات معلوم تھی۔

                قرآن کریم کی یہ آیت ہمارے اوپر تفکر کے دروازے کھول دیتی ہے:

                پس یہ حقیقت ہے کہ جسے اللہ ہدایت بخشنے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینہ اسلام کیلئے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہی میں ڈالنے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینہ تنگ اور گھٹا ہوا کر دیتا ہے گویا وہ آسمان (بلندی) پر بڑھ رہا ہے۔

                سائنس نے یہ بات معلوم کی کہ زمین کے سخت بیرونی حصے کے نیچے ایک نرم طبقہ بھی ہے……پہاڑ جو ہمیں زمین پر نظر آتے ہیں نرم طبقے کے اندر داخل ہو کر زمین کی جڑوں کا کام کرتے ہیں اور زمین کو ہلنے اور کھسکنے سے بچاتے ہیں۔

                اے آنکھ رکھنے والوں عبرت پکڑو……

                قرآن نے اس بات کو ڈیڑھ ہزار سال پہلے بیان کر دیا ہے:

                ہم نے زمین پر پہاڑ بنا دیئے تا کہ زمین اپنی سمت سے کہیں ڈھلک نہ جائے اور ہم نے پہاڑوں کو میخیں بنا دیا اور انہیں زمین میں گاڑ دیا۔

                سائنس کہتی ہے کہ:

                سمندر کی کچھ موجیں سطحی ہوتی ہیں اور کچھ موجیں ان سطحی موجوں کے نیچے ہوتی ہیں سمندر کی گہرائیوں میں اندھیرے ہوتے ہیں اور یہ اندھیرے موجوں کی طرح تہہ بہ تہہ ہوتے ہیں۔ ایک موج اوپر سے آنے والی روشنی کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے روشنی کو زائل کر دیتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سورج کی روشنی سمندر کی سطح تک پہنچتے پہنچتے ختم ہو جاتی ہے۔

                آیئے! دیکھیں کہ کائناتی سائنس کی سب سے بڑی کتاب (قرآن) اس سلسلے میں کیا انکشاف کرتی ہے۔

                ’’یا پھر اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے ایک گہرے سمندر میں اندھیرا اور ایک موج چھائی ہوئی اس پر ایک اور موج اور اس کے اوپر بادل تاریکی مسلط ہے آدمی اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی نہ دیکھنے پائے جسے اللہ نور نہ بخشے اس کے لئے کوئی نور نہیں۔‘‘ (النور)

                جب ہم قرآن پاک کا وہ حصہ جسے معاد کہتے ہیں پڑھتے ہیں اور معاد سے متعلق آیتوں پر تفکر کرتے ہیں تو ہمارے سامنے موجودہ سائنس ایک بازیچۂ اطفال لگتی ہے……ہر وہ بات جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم نے پندرہ سو سال پہلے بتا دی ہے ایک منظم اسکیم اور مربوط نظام کے تحت اس کو اپنی بات کہہ کر بیان کیا جا رہا ہے……یہ بھی تو ہو سکتا ہے اور میرا لاشعور بار بار مجھے اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ

                موجودہ دور کا Scientistقرآن کے علوم سے استفادہ کر رہا ہے اور ایسا اس لئے ہو سکتا ہے کہ خود خالق کائنات نے فرما دیا ہے:

                ’’اور ہم نے قرآن کا سمجھنا آسان کر دیا ہے، ہے کوئی سمجھنے والا۔‘‘

                ہماری بدنصیبی اور محرومی یہ ہے کہ ہم ان کائناتی علوم کی طرف توجہ نہیں دیتے جو ہمیں ہمارے نجات دہندہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پندرہ سو سال پہلے بتا دیئے اور سکھا دیئے ہیں۔

                البتہ ہم

                سائنسدانوں کی بات مان لیتے ہیں چاہے انہوں نے وہ بات قرآن سے ہی اخذ کی ہو……

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔