Topics
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اے
ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض کئے گئے
تھے تا کہ تم متقی بن جائو۔‘‘
ماہ
رمضان کے روزے ایک پروگرام ہے۔ اس بات سے متعلق کہ انسان اپنی روح اور غیب سے
متعارف ہو جائے۔ پروگرام ہمیں آہستہ آہستہ مظاہر سے دور لے جاتا ہے۔ اگرچہ انسان
مظاہر میں پھنسا رہتا ہے لیکن اس کی روح مظاہر سے ہٹ کر اللہ سے قریب ہو جاتی ہے
اور انسان اس مقام پر پہنچ جاتا ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
’’میں تمہاری رگِ جان سے زیادہ قریب ہوں۔‘‘
روزے
کے پروگرام سے اسی وقت مکمل ثمرات حاصل کئے جا سکتے ہیں جب اس کی حقیقی روح کو
مدنظر رکھ کر اس پر عمل کیا جائے۔ مرغن اور ثقیل غذائوں سے پرہیز، نیند کے وقفے
میں حتی الامکان کمی، گفتگو میں احتیاط، یہ اعمال حقیقی اور مکم روزے کا لازمہ
ہیں۔ ان باتوں پر عمل پیرا ہو کر انسان اس نکتہ پر آ جاتا ہے جہاں مظاہر کی نفی
شروع ہوتی ہے اور غیب منکشف ہوتا ہے۔
رمضان
کے مہینے سے قرآن پاک کو خصوصی مناسبت ہے۔ قرآن پاک اسی مہینے میں نازل ہوا اور
دوسری آسمانی کتابیں بھی اس مہینے میں نازل ہوئیں۔ قرآن پاک کی تلاوت کیجئے کہ
روزہ میں آدمی کے اندر تفکر کے دروازے کھل جاتے ہیں اور قرآن سمجھنا آسان ہو
جاتا ہے۔
رمضان
کے آخری عشرے میں زیادہ سے زیادہ شب بیداری اور عبادت کا اہتمام کیجئے۔ اسی عشرے
کی ایک رات ’’لیلۃ القدر‘‘ ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’ہم
نے نازل کیا اس کو ’’لیلۃ القدر‘‘ میں اور لیلۃ القدر محیط ہے ہزار مہینوں کو۔ اس
رات میں ملائکہ اور روح اترتے ہیں اپنے رب کے حکم سے اور یہ رات امان اور سلامتی
کی ات ہے طلوع فجر تک۔‘‘
روزہ
دراصل تزکیہ نفس اور خود احتساب کا عمل اور اس کے لئے آداب متعین کرتا ہے۔
روزہ
میں نہایت اہتمام کے ساتھ ہر بُرائی سے دور رہنے کی بھرپور کوشش ہماری ذمہ داری
ہے۔ اپنی زبان اور قلب کو ذکر الٰہی میں مصروف رکھئے۔ آپ کا کوئی بھائی زبان سے
بے شرمی کی بات کہے۔ گالم گلوچ کرے، شور و ہنگامہ پر آمادہ ہو تو آپ خاموشی
اختیار کیجئے اور اس کو بتا دیجئے کہ آپ روزے سے ہیں۔
پورے
اہتمام اور اشتیاق کے ساتھ رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کی کوشش کیجئے اور چاند
دیکھ کر دعا پڑھئے:
اللّٰہ
اکبر اللّٰھم اھلہ علینا بالامن والایمان والسلامۃ والاسلام والتوفیق لماتحب و
ترضی ربنا و ربک اللّٰہ
حضور
اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا:
’’لوگو!
تم پر ایک بہت عظمت اور برکت کا مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس
میں ایک رات ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔ خدا
نے اس مہینے کے روزے فرض کئے ہیں…‘‘
اس
مبارک مہینے میں انسان اللہ کی خاطر کھانا پینا ترک کر دیتا ہے۔ اس لئے اس پر اللہ
کی رحمت کا دامن بھی وسیع ہو جاتا ہے، خدا رمضان میں عرش اٹھانے والے فرشتوں کو
حکم دیتا ہے کہ اپنی عبادت چھوڑ دو اور روزہ رکھنے والوں کی دعائوں پر آمین کہو۔
افطار
کے وقت روزہ دار کی دعا قبول کی جاتی ہے۔
رمضان
میں بالخصوص اور دیگر مہینوں میں بالعموم مخلوق خدا کی مالی اور اخلاقی ہر طرح سے
خدمت کیجئے۔ رمضان کے بارے میں حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ یہ مہینہ حاجت مندوں اور
مستحقین سے مالی اور اخلاقی دونوں طرح کی ہمدردی کا مہینہ ہے۔
رسول
اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رمضان کے آخری دس دنوں میں اعتکاف فرماتے تھے۔ رمضان کے
آخری عشرہ میں نبی راتوں کو زیادہ سے زیادہ جاگ کر عبادت فرماتے اور گھر والوں کو
بھی جگانے کا اہتمام کرتے اور پوری توجہ سے خدا کی بندگی میں مصروف ہو جاتے تھے۔
اس عشرہ میں اللہ کے لئے بھوکے پیاسے رہنے والے اور اللہ کی عبادت کرنے والے بندے
اللہ تعالیٰ کی تجلی کے دیدار سے مشرف ہو جاتے ہیں۔
ایسے
روزے سے کوئی فائدہ نہیں اور نہ ایسا روزہ قبول بارگاہ ہے جس میں آدمی دوسروں کو
تکلیفیں پہنچائے اور اخلاقی برائیوں کا مرتکب ہو۔
اس
کے برعکس صحیح روزہ دار کے لئے روزہ ڈھال بن جاتا ہے۔ قیامت کے روز روزہ سفارش کرے
گا اور کہے گا۔ پروردگار! میں نے اس شخص کو دن میں کھانے پینے اور دوسری لذتوں سے
روکے رکھا، خدایا! تو اس شخص کے حق میں میری سفارش قبول فرما۔ اور خدا اس کی سفارش
قبول فرمائے گا۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔