Topics

جولائی 2001؁۔صالح عمل

’’اور ہم ضرور تمہارا امتحان لیں گے خوف، بھوک، مال، جان اور ثمرات کے ساتھ ۔ اور صبر کرنے والوں کو بشارت دیجئے کہ ان کو جب کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور ہم کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے‘‘۔  (سورہ البقرہ)

              ’’اور جو کوئی صالح عمل کرے مرد ہو یا عورت بشرطیکہ مومن ہو تو ہم اسے ضرور ایک بہترین زندگی کے ساتھ زندہ رکھیں گے اور ان کو ان کے کئے کا پورا (اجر) دیں گے جو ان کے ان بہتر کاموں کے لائق ہو‘‘۔  (سورہ النحل)

              ’’اور اللہ ایسے ایمان والوں کے اچھے عمل قبول کرتا ہے اور ان کو اپنے فضل سے اور زیادہ دیتا ہے‘‘۔ 

              (سورہ شوریٰ)

              مومن کا معاملہ بھی خوب ہے۔ وہ جس حال میں بھی ہوتا ہے خیر سمیٹتا ہے۔ اگر وہ دکھ، بیماری اور تنگ دستی سے دوچار ہوتا ہے تو سکون کے ساتھ برداشت کرتا ہے اور آزمائش اس کے حق میں خیر ثابت ہوتی ہے اور اگر اس کو خوشی اور خوشحالی نصیب ہوتی ہے تو شکر کرتا ہے اور یہ خوش حالی اس کے لئے خیر کا سبب بنتی ہے۔

              کٹھن حالات اور آزمائشوں کے ذریعے قدرت آدمی کی سوچ کو نکھارنے اور اس کو کندن بنانے کا کام بھی لیتی ہے۔ وہ مشکلات کو بہت قریب سے دیکھتا ہے تو معاملات کو پرکھنے اور مشاہدہ کرنے کی بصیرت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ ایک پریکٹیکل اور باعمل شخص بن جاتا ہے۔ دنیا میں کامیاب انسانوں کی فہرست پر غور کریں تو ان میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی موجود رہی ہے جنہوں نے کٹھن حالات اور آزمائشوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ اسی وجہ سے وہ کامیابی کے زینے عبور کرتے چلے گئے۔

              اللہ تعالیٰ پر بے پناہ بھروسہ مومن کی زندگی کو طمانیت اور سکون کی راہ پر ڈال دیتا ہے اور خوشی و غمی، تکلیف و آرام ہر حال میں اللہ ہی اس کی تمام خواہشات اور تمنائوں کا مرکز قرار پاتا ہے۔ حضرت یونس ؑ نے مچھلی کے پیٹ میں اپنے پروردگار سے جو دعا کی وہ یہ تھی:

              لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین

              ترجمہ: تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ تو بے عیب و پاک ہے۔ میں ہی اپنے اوپر ظلم ڈھانے والا ہوں۔

              ایک مرتبہ نبی کریمﷺ ایک قریب المرگ نوجوان کے پاس گئے۔ آپﷺ نے دریافت فرمایا ’’اس وقت تم اپنے آپ کو کس حال میں پاتے ہو؟‘‘

              نوجوان نے کہا ’’اے اللہ کے رسول میں اللہ کی رحمت کی امید رکھتا ہوں اور اپنے گناہوں کا ڈر بھی لگا ہوا ہے‘‘۔

              نبی کریمﷺ نے اس موقع پر ارشاد فرمایا’’جس شخص کے دل میں یہ دونوں خیالات ہوں گے تو یقینا اللہ تعالیٰ اس کی توقعات کو پورا کرے گا اور جس چیز کا اسے دھڑکا لگا ہوا ہے اس سے محفوظ رکھے گا‘‘۔

              زندگی میں مایوسی اور تکلیفیں تو آتی ہی ہیں۔ ان مشکلات پر ہاتھ پیر چھوڑ دینا یا ہمت ہار دینا اپنی صلاحیتوں پر زنگ لگا دینا ہے۔

              ایک مرتبہ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’اگر تمہارے اوپر کوئی مصیبت آن پڑے تو یوں مت سوچو کہ کاش میں ایسا کرتا تو یوں ہو جاتا بلکہ یوں سوچو کہ اللہ نے جو چاہا وہ کیا۔ کاش کہنا شیطان کے لئے دروازہ کھول دیتا ہے۔ اپنی مشکلات میں خدا سے مدد طلب کرو اور ہمت نہ ہارو‘‘۔

              مومن اور کافر کے کردار میں یہ فرق ہے کہ کافر رنج و غم کے ہجوم میں پریشان ہو کر مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات مایوسی اس حد تک اس کے اوپر مسلط ہو جاتی ہے کہ وہ پریشان حالی اور درماندگی کی تاب نہ لا کر خود کشی کا مرتکب بن جاتا ہے۔

              اس کے برعکس مومن مصائب و آلام کو صبر و سکون کے ساتھ برداشت کرتا ہے اور بڑے سے بڑے حادثہ پر بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا اور صبر و استقامت کا پیکر بن کر چٹان کی طرح اسی جگہ قائم رہتا ہے اور جو کچھ پیش آ رہا ہے اس کو اللہ کی مشیت سمجھ کر اس میں خیر کا پہلو نکال لیتا ہے۔

 

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔