Topics
ہجرت کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ
علیہ و سلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہل مدینہ دو مخصوص دن تفریح کیا کرتے تھے۔
رسول اللہﷺ نے دریافت فرمایا۔ ’’ یہ دو روز کیا ہیں؟‘‘
اہل
مدینہ نے عرض کیا۔ ’’یا رسول اللہﷺ! زمانۂ جاہلیت کے وقت ہم ان دنوں میں کھیل کود
اور تفریح کرتے تھے۔‘‘
آپ
صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’اہل یثرب! اللہ تعالیٰ نے تم کو ان دو دنوں کی
بجائے ان سے بہت اعلیٰ و ارفع دن عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے عطا کئے ہیں۔ ‘‘
اور فرمایا کہ جب عید کا دن ہوتا ہے تو فرشتے عید گاہ کے راستے میں انتظار کرتے
ہیں اور پکارتے ہیں:
’’اے
مسلمانوں کے گروہ! چلو اپنے رب کریم کی طرف جو احسان کرتا ہے بھلائی کے ساتھ اور
اجر عطا فرماتا ہے اور تم کو رات کو عبادت کرنے کا حکم دیا گیا، پس تم نے قیام کیا
اور تم کو روزے رکھنے کا فرمان جاری کیا، پس تم نے روزے رکھے اور اپنے رب کریم کی
اطاعت کی۔ اب تم انعام حاصل کرو۔‘‘
اور
جب نمازی عید کی نماز سے فارغ ہو جاتے ہیں تو ملائکہ اعلان کرتے ہیں:
’’آگاہ
ہو جائو! بے شک تمہارے رب نے تمہیں اجر عطا فرمایا اور تم آئے اپنے گھر کی طرف
کامیاب ہو کر۔‘‘
عیدالفطر
ایک اعلیٰ و ارفع پروگرام کی کامیابی کی خوشی منانے کا دن ہے۔ رب کریم کا کرم ہے
کہ اس نے اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے صدقے میں ماہ شوال کی پہلی تاریخ
کو دنیا و آخرت کی لازوال اور بے کراں مسرتوں اور نعمتوں سے ہم کنار فرمایا۔ جب
کہ اسی شوال کے مہینے میں سابقہ امتوں کو ان کی نافرمانی کی پاداش میں ہلاک کر دیا
گیا تھا۔
حضرت
علی کرم اللہ وجہہ سے رویات ہے کہ ماہ شوال کی پہلی تاریخ بروز شنبہ قوم نوح غرقاب
ہوئی جس دن قوم لوط پر عذاب نازل ہوا اس روز بھی شوال کی پہلی تاریخ تھی۔ فرعون
اپنے لشکر سمیت سہ شنبہ کو دریا میں غرق ہوا اور یہ بھی شوال کی پہلی تاریخ تھی۔
قوم عاد چہار شنبہ کو ہلاک ہوئی اس روز بھی شوال کی پہلی تاریخ تھی۔ قوم صالح پر
پنجشنبہ کو عذاب نازل ہوا اور یہ مہینہ بھی شوال کا تھا۔
عیدالفطر
کا دن تھا۔ صبح سویرے تمام مسلمان اپنے مقدس تہوار کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ مسرت
و شادمانی کی فضا مدینہ پر چھائی ہوئی تھی۔ عید کی نماز کا وقت جیسے جیسے قریب آ
رہا تھا بوڑھے اور جوان اپنے عمدہ ترین لباس میں ملبوس عید گاہ کی جانب گامزن تھے۔
بچے اپنے بزرگوں کے نزدیک عید گاہ کے میدان میں کھیل رہے تھے۔ فضا خوشبو دار لباس،
معطر رومالوں اور بچوں کی آوازوں سے روح پرور، فرحت انگیز اور دل کش تھی۔ عید کی
نماز ختم ہوئی۔ لڑکے اچھلتے کودتے، شاداں و فرحاں اپنے اپنے گھروں کی جانب واپس
ہونے لگے۔ نبی مکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے واپسی کا قصد فرمایا تو اچانک آنحضرت
صلی اللہ علیہ و سلم نے میدان کے ایک گوشے میں تن تنہا پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس
ایک نحیف و نزار، کمزور و ناتواں لڑکے کو دیکھا جو رو رہا تھا۔ نبی مکرمﷺ فوراً اس
لڑکے کے قریب پہنچے۔ شفقت و محبت اور بڑی ملائمیت سے لڑکے کے سر پر ہاتھ رکھا اور
فرمایا۔’’میرے بچے! تم کیوں رو رہے ہو؟‘‘
لڑکے
نے غصے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ہاتھ جھٹک دیا اور کہا۔ ’’خدا کے واسطے
مجھے تنہا چھوڑ دو۔‘‘
حضورﷺ
نے اس کے بالوں میں شفقت سے اپنی انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔ ’’لیکن میرے بچے! مجھے
بتائو تو سہی آخر تمہارے ساتھ ہوا کیا ہے؟‘‘
لڑکے
نے اپنے سر کو گھٹنوں میں چھپا کر سسکیاں لیتے ہوئے کہا۔ ’’پیغمبر اسلام کی ایک
جنگ میں میرا باپ ہلاک ہو چکا ہے، میری ماں نے دوسری شادی کر لی ہے اور اس کے نئے
شوہر نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے۔ میری جائیداد بھی دوسروں نے چھین لی ہے۔ آج سب
لڑکے نئے نئے جوڑے پہن کر خوشی سے ناچ رہے ہیں، کھیل رہے ہیں…اور میرے پاس، نہ
کھانے کی کوئی چیز ہے اور نہ پہننے کو کوئی کپڑا…اور نہ پناہ لینے کو کوئی سایہ…‘‘
لڑکے
کی افسوس ناک داستان سن کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی آنکھوں سے آنسو
بہنے لگے۔ مگر آپﷺ نے مسکرا کر فرمایا۔ ’’اگر میں تمہارا باپ ہو جائوں اور عائشہؓ
تمہاری ماں اور فاطمہؓ تمہاری بہن تو میرے بچے کیا تم خوش ہو جائو گے؟‘‘
لڑکے
فوراً اثبات میں سر ہلا دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کو اپنے ساتھ گھر
لے گئے۔ حضرت عائشہؓ کو آواز دی اور فرمایا۔ ’’دیکھو! یہ تمہارا بیٹا ہے۔‘‘
ام المومنین حضرت عائشہؓ نے اپنے
ہاتھوں سے بچے کو نہلایا، نیا کپڑا پہنایا اور کھانا کھلانے کے بعد کہا۔ ’’بیٹے!
اب تم باہر جائو، دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلو جا کر…مگر دیکھو، تھوڑی دیر کے بعد
اپنے گھر واپس آ جانا…!‘‘
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔