Topics
حقیقت میں خدا کے محبوب وہ لوگ ہیں جو خدا
کی راہ میں اس طرح لڑتے ہیں گویا سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔ (الصف۔۴)
قیامت
میں خدا فرمائے گا وہ لوگ کہاں ہیں جو صرف میرے لئے لوگوں سے محبت کیا کرتے تھے۔ آج
میں ان کو اپنے سائے میں جگہ دوں گا۔ (رسول
اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم)
قیامت
کے روز کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو اپنی قبروں سے باہر آئیں گے اور ان کے چہرے نور سے
جگمگا رہے ہوں گے وہ موتیوں کے منبر پر بٹھائے جائیں گے تو لوگ ان کی شان پر رشک کریں
گے۔ یہ لوگ نہ نبی ہوں گے نہ شہید……
ایک
بدو نے سوال کیا۔
یا
رسول اللہﷺ!
یہ
کون لوگ ہیں؟ ہمیں ان کی پہچان بتا دیجئے۔
فرمایا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے۔
یہ
وہ لوگ ہیں جو آپس میں محض خدا کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔
حضرت
محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا:
خداوند
قدوس کا ارشاد ہے:
مجھ
پر واجب ہے کہ میں ان لوگوں سے محبت کروں جو لوگ میری خاطر آپس میں محبت اور دوستی
کرتے ہیں اور میرا ذکر کرنے کیلئے ایک جگہ جمع ہو کر بیٹھتے ہیں اور میری محبت کے سبب
ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں اور میری خوشنودی پانے کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ نیک سلوک
کرتے ہیں۔
اللہ
کے محبوب علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک رات اپنے حبیب اللہ رب العالمین کا دیدار کیا۔
اللہ نے جب اپنے محبوب سے کہا۔
میرے
محبوب مانگئے!
اللہ
کے محبوب نے یہ دعا مانگی!
اے
اللہ!
میں
تجھ سے نیک کاموں کی توفیق مانگتا ہوں۔ اور برائیوں سے بچنے کی قوت چاہتا ہوں۔
اے
اللہ!
میں
تجھ سے مسکینوں کی محبت مانگتا ہوں۔ اور یہ کہ تو میری مغفرت فرما دے اور مجھ پر رحم
فرما دے اور جب تو کسی قوم کو عذاب میں مبتلا کرنا چاہے تو مجھے اس سے محفوظ و مامون
فرما دے اور
اے
اللہ!
میں
تجھ سے تیری محبت کا سوال کرتا ہوں۔ اور اس شخص کی محبت کا سوال کرتا ہوں جو تجھ سے
محبت کرتا ہے اور اس عمل کی توفیق چاہتا ہوں جو تیرے قرب کا ذریعہ بن جائے۔
ایک
بار حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ میں کسی بات پر سخت کلامی ہو گئی۔ بعد میں حضرت ابوبکرؓ
کو احساس ہوا۔ وہ انتہائی درجہ مغموم نبی برحق علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر
ہوئے۔
حضرت
ابوبکرؓ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کہا۔
یا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم!
میرے
اور عمرؓ کے درمیان تلخ کلامی ہو گئی ہے۔ مجھے بعد میں بہت شرمندگی ہوئی۔ میں نے عمرؓ
سے معافی چاہی لیکن عمرؓ نے معاف نہیں کیا۔
نبی
برحق علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا۔
اللہ
تمہیں معاف کرے گا اور تمہیں بخش دے گا۔ اسی دوران حضرت عمرؓ کو اپنی غلطی کا احساس
ہوا۔ وہ دوڑے دوڑے حضرت ابوبکرؓ کے گھر گئے۔ وہاں معلوم ہوا کہ حضرت ابوبکرؓ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے پاس گئے ہیں۔ حضرت عمرؓ بھی اسی وقت رسول اللہ صلی
اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
حضرت
ابوبکرؓ نے جب یہ دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے چہرہ مبارک پر
غصہ اور ناگواری کے آثار نمایاں ہوئے ہیں تو ڈرتے ڈرتے فرمایا۔
سارا
قصور میرا ہے۔ میں نے ہی زیادتی کی ہے میں نے انہیں سخت سست کہا ہے۔
رحمت
العالمین محبوب رب العالمین نے فرمایا:
اللہ
نے مجھے تمہارے پاس پیغمبر بنا کر بھیجا اور جب شروع شروع میں تم لوگ مجھے جھٹلا رہے
تھے۔ اس وقت ابوبکرؓ نے میری تصدیق کی۔ اور جان و مال سے ہر طرح میرا ساتھ دیا……تو
کیا……تم اب میرے ساتھی کو رنجیدہ کرو گے؟
حضرت
محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا ارشاد ہے:
لوگوں
کے اعمال ہر پیر اور جمعرات کو پیش ہوتے ہیں اور لوگوں کو بخش دیا جاتا ہے۔ سوائے اس
کے جس کے دل میں اپنے مومن بھائی کی طرف سے کوئی عداوت ہو……کہا جاتا ہے کہ ان کو چھوڑ
دو تا کہ یہ آپس میں صلح کر لیں۔
حضرت
موسیٰ علیہ السلام نے رب ذوالجلال سے پوچھا!
اے
میرے رب!
آپ
کے نزدیک آپ کے بندوں میں کون سب سے پیارا ہے؟
رب
العالمین نے جواب دیا۔
وہ
جو انتقام کی قدرت رکھنے کے باوجود معاف کر دے۔
حضرت
عائشہ صدیقہؓ بیان فرماتی ہیں۔ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:
اللہ
کی نظر میں بدترین آدمی قیامت کے دن وہ ہو گا جس کی بدزبانی اور فحش کلامی سے لوگ
اس سے ملنا چھوڑ دیں۔
دوستو!
اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو محسوس کریں۔ اپنی غلطیوں کا جرأت کے ساتھ اعتراف کریں۔
نمائشی
عاجزی، زبانی جمع خرچ کر کے، خود کو حقیر کہنا صاحب میں کس قابل ہوں، میں تو بہت گنہگار
ہوں……ارے میاں میں تو آپ کا ادنیٰ غلام ہوں۔ جھوٹی انکساری کرنا آسان بات ہے……لیکن
اپنے اوپر اور اپنے نفس پر تنقید برداشت کرنا۔ اپنی کوتاہیوں کو تسلیم کرنا……انتہائی
مشکل کام ہے۔ بہادری یہ ہے کہ کبر و نخوت اور خوش پسندی سے خود کو بچاتے رہیں اور بلاتخصیص
اللہ کی مخلوق سے محبت کریں۔ ہر آدم زاد کا احترام کریں۔ اور جو اپنے لئے چاہیں وہ
اپنے بھائی بہنوں کیلئے چاہیں۔
دوستوں
سے خلوص و محبت کا اظہار کرنے کیلئے اور محبت و اخوت کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے کیلئے
تحفوں کا تبادلہ کیجئے۔ ہدیوں کے لینے دینے اور تحفوں کو قبول کرنے اور تحفے پیش کرنے
سے محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ آپس میں دل جڑتے ہیں۔
رسول
اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
ایک
دوسرے کو ہدیہ بھیجا کرو۔ آپس میں محبت پیدا ہو گی اور دلوں کی کدورت ختم ہو جائے
گی۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔