Topics
خدا کے دین کو چھوڑ کر جو طریق بھی
اختیار کیا جائے گا، خدا کے یہاں اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔ اللہ رب العزت کے
لئے وہی دین مقبول بارگاہ ہے جس کا تذکرہ قرآن پاک میں بالوضاحت کیا گیا ہے اور
جس کی عملی تفسیر اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی مبارک زندگی میں پیش
فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبﷺ سے ارشاد فرمایا کہ لوگوں کو صاف صاف بتا
دیجئے کہ میں نے جو راہ بھی اپنائی ہے سوچ سمجھ کر پوری بصیرت کے ساتھ اپنائی ہے۔
’’اے
رسول! آپ ان سے صاف صاف کہہ دیجئے کہ میرا راستہ تو یہ ہے کہ میں اور میرے پیچھے
چلنے والے پوری بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف دعوت دے رہے ہیں اور خدا ہر عیب سے پاک
ہے اور میرا ان سے کوئی واسطہ نہیں جو خدا کے ساتھ شرک کرتے ہیں۔‘‘
’’اور
جو کوئی اسلام کے سوا کسی دوسرے دین کو اختیار کرنا چاہے گا اس کا وہ دین ہرگز
قبول نہیں کیا جائے گا۔ اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد ہو گا۔‘‘
’’اور
خدا کے نزدیک دین تو بس اسلام ہی ہے۔‘‘…(قرآن)
امت
مسلمہ کو خدا نے دین کی جو دولت عطا کی ہے یہی دونوں جہان کی عظمت و سربلندی کا
سرمایہ ہے بھلا اس کے مقابلے میں دنیا کی دولت اور شان و شوکت کی کیا قدر و قیمت
ہے جو چند روزہ اور فانی ہے۔
قرآن
اہل کتاب کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے:
’’اے
اہل کتاب! تم کچھ نہیں ہو جب تک تم تورات اور انجیل اور دوسری کتابوں کو قائم نہ
کرو جو تمہارے رب نے نازل فرمائی ہیں۔‘‘
(قرآن)
بلاشبہ
صحیح فہم کے ساتھ دین کی حکمت ہی تمام بھلائیوں کا سرچشمہ ہے اور جو شخص اس چیز سے
محروم ہے وہ دونوں جہان کی نعمتوں اور سعادتوں سے محروم ہے۔ اس کی زندگی میں کبھی
طمانیت اور سکون داخل نہیں ہوتا۔
اللہ
کے مشن (دین) کو پھیلانا ہر امتی پر فرض ہے۔ اس فرض کی ادائیگی کے لئے پہلے خود
اپنا عرفان حاصل کریں۔ خود آگاہی اور اپنی ذات کا عرفان ایسی روحانی کامیابی ہے
جس کے ذریعے انسان اپنی دعوت کا سچا نمونہ بن جاتا ہے۔ جو کچھ کہتا ہے عمل و کردار
سے اس کا اظہار ہوتا ہے جب حضور اکرمﷺ کے اخلاقی، دینی اور روحانی مشن کو عام کرنے
کے لئے لوگوں کو دعوت دیتا ہے تو پہلے خود اس کی مثال قائم کرتا ہے۔ خدا کو یہ بات
انتہائی ناگوار گزرتی ہے کہ دوسروں کو نصیحت کرنیوالے خود بے عمل ہوں۔ نبی برحقﷺ
نے بے عمل دعوت دینے والوں کو انتہائی ہولناک عذاب سے ڈرایا ہے۔
نبی
کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
’’میری
مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی اور جب آس پاس کا ماحول آگ کی روشنی سے
چمک اٹھا۔ کیڑے، پتنگے اس پر گرنے لگے اور وہ شخص پوری قوت سے ان کیڑوں پتنگوں کو
روک رہا ہے لیکن پتنگے ہیں اس کی کوشش کو ناکام بنائے دیتے ہیں اور آگ میں گھسے
پڑ رہے ہیں (اسی طرح) میں تمہیں کمر سے پکڑ پکڑ کر آگ سے روک رہا ہوں اور تم ہو
کہ آگ میں گرے پڑ رہے ہو۔‘‘
آپ
مکے میں ہیں اور مکے کے لوگوں میں آپ کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ
انہیں شہر سے نکال دو، کوئی کہتا ہے کہ انہیں قتل کر دو۔ ان ہی دنوں مکے کو اچانک
قحط نے آ گھیرا… ایسا قحط کہ قریش کے لوگ
پتے اور چھال کھانے پر مجبور ہو گئے۔ بچے بھوک سے بلبلاتے اور بڑے ان کی حالت زار
دیکھ کر تڑپ تڑپ اٹھتے تھے۔
رحمت
کون و مکاں ان لوگوں کو اس لرزہ خیز مصیبت میں مبتلا دیکھ کر بے قرار ہو گئے۔ آپﷺ
کے مخلص ساتھی بھی آپﷺ کا اضطراب دیکھ کر تڑپ اٹھے۔ آپﷺ نے اپنے جانی دشمنوں کو،
جن کے پہنچائے زخم ابھی بالکل تازہ تھے، اپنی دلی ہمدردی کا پیغام بھیجا۔ اور
ابوسفیان اور صفوان کے پاس پانچ سو دینار بھیج کر کہلوایا کہ یہ دینار ان قحط کے
مارے ہوئے غریبوں میں تقسیم کر دیئے جائیں۔
رسول
اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اسوۂ حسنہ پر عمل کر کے آپ بھی قوم کی بے لوث خدمت
کیجئے۔ اپنی کسی خدمت کا بندوں سے صلہ طلب نہ کیجئے۔ جو کچھ کیجئے محض خدا کی
خوشنودی کیلئے کیجئے۔
خدا
ہمیشہ سے ہے، ہمیشہ رہے گا۔ نہ اسے نیند آتی ہے نہ اونگھ ۔ اس کی نظر سے بندہ کا
کوئی عمل پوشیدہ نہیں۔ وہ اپنے مخلص بندوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔
جب
ہم غور کرتے ہیں تو ہمارے سامنے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ اپنی
مخلوق کی خدمت کرتا ہے۔ پیدائش سے تامرگ اور مرنے کے بعد اپنی مخلوق کے لئے وسائل
کی فراہمی ایک ایسی خدمت ہے جو خالق کائنات کا اپنا ذاتی وصف ہے۔ اللہ اپنے ہر
بندہ کو، وہ گناہ گار ہو یا نیکو کار، رزق عطا فرماتا ہے۔ رزق سے استفادہ کرنے کے
لئے صحت عطا کرتا ہے۔ زمین کی بساط پر بکھری ہوئی چیزوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے
عقل و شعور کی دولت سے نوازتا ہے، ہماری ہر طرح حفاظت کرتا ہے اور محبت کے ساتھ
ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں کو معاف کرتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔