Topics

جنوری 1993؁ء۔سورہ توبہ کی آیتیں

قرآن پاک میں حضرت کعب ابن مالکؓ کا عبرت انگیز واقعہ ہمیشہ کیلئے سبق ہے کہ بندہ ہر آزمائش برداشت کر لے لیکن خدا کے در سے اٹھنے کا تصور دل میں نہ لائے اللہ کی راہ میں آدمی پر جو کچھ بیتے اور خدا کی طرف سے اس کو جتنا بھی آزمایا جائے وہ اس کے درجات کو بلند کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ یہ بے عزتی دائمی عزت کا یقینی راستہ ہے اور جو خدا کے دروازے کو چھوڑ کر کہیں اور عزت تلاش کرتا ہے اس کو کہیں بھی عزت میسر نہیں آتی۔

                ترجمہ:’’اور ان تینوں کو بھی خدا نے معاف کر دیا جن کا معاملہ ملتوی کر دیا گیا تھا۔ جب زمین اپنی ساری وسعتوں کے باوجود ان پر تنگ ہو گئی اور ان کی جانیں بھی ان پر بار ہونے لگیں اور انہوں نے جان لیا کہ خدا سے بچنے کیلئے کوئی پناہ گاہ نہیں ہے سوائے ا کے خود اسی کی پناہ لی جائے تو خدا اپنی مہربانی سے ان کی طرف پلٹا تا کہ وہ اس کی طرف پلٹ آئیں بلاشبہ وہ بڑا ہی معاف فرمانے والا اور انتہائی مہربان ہے۔‘‘ (التوبہ (۱۱۸)

                ان تینوں بزرگوں سے حضرت کعب بن مالکؓ، حضرت مرارہ ابن ربیعؓ اور حضرت بلال ابن امیہؓ مراد ہیں اور ان تینوں کی مثالی توبہ رہتی زندگی تک کیلئے مومنوں کے واسطے مشعل راہ ہے۔ حضرت کعب ابن مالکؓ جو بڑھاپے میں نابینا ہو گئے تھے اور اپنے صاحبزادے کے سہارے چلا کرتے تھے۔ انہوں نے خود اپنی مثالی توبہ کا نصیحت آموز واقعہ اپنے بیٹے سے بیان کیا تھا جو حدیث کی کتابوں میں محفوظ ہے۔

                غزوہ تبوک کی تیاری کے ز مانے میں جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم مسلمانوں کو غزوہ میں شریک ہونے پر ابھارا کرتے تھے میں بھی ان صحبتوں میں شریک رہتا۔ جب بھی آپﷺ کی باتیں سنتا دل میں سوچتا کہ میں ضرور جائوں گا لیکن واپس جب گھر آتا تو سستی کر جاتا اور سوچتا بھی بہت وقت ہے میرے پاس سفر کا سامان موجود ہے۔ صحت مند ہوں، سواری اچھی سے اچھی مہیا ہے پھر روانہ ہوتے کیا دیر لگے گی اور بات ٹلتی رہی یہاں تک کہ سارے مجاہدین میدان جنگ میں پہنچ گئے۔ اور میں مدینہ میں بیٹھا ارادہ ہی کرتا رہا۔

                اب خبریں آنے لگیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم واپس آنے والے ہیں اور ایک دن معلوم ہوا کہ آپﷺ واپس آ گئے اور حسب معمول مسجد میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ میں بھی مسجد میں جا پہنچا۔ یہاں منافقین حضورﷺ کی خدمت میں پہنچ رہے تھے اور لمبی چوڑی قسمیں کھا کھا کر اپنے عذرات پیش کر رہے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم ان کی بناوٹی باتیں سن کر ان کے ظاہری عذر قبول کر رہے تھے اور فرماتے جاتے خدا تمہیں معاف کرے۔

                جب میری باری آئی تو نبیﷺ نے مجھ سے کہا کہو تمہیں کس چیز نے روک دیا تھا؟ میں نے دیکھا کہ آپﷺ کی مسکراہٹ میں غصہ کے آثار ہیں اور میں نے صاف صاف بات کہہ ڈالی۔ اے خدا کے رسولﷺ! واقعہ یہ ہے کہ مجھے کوئی عذر نہ تھا۔ میں صحت مند تھا۔ خوشحال تھا سواری بھی میرے پاس موجود تھی۔ بس میری سستی اور غفلت نے مجھے اس سعادت سے محروم رکھا۔

                اس کے بعد نبیﷺ نے عام اعلان فرمایا کہ ہم تینوں سے کوئی بات نہ کرے۔ یہ اعلان ہوتے ہی میرے لئے مدینے کی زمین بالکل بدل گئی اور میں اپنوں میں بے یار و مددگار بالکل اجنبی بن کر رہ گیا۔ کوئی بھی معاشرے میں مجھ سے سلام کلام نہ کرتا۔ ایک دن جب میں بہت زیادہ اکتا گیا اور طبیعت بہت گھبرائی تو اپنے ایک بچپن ک ے دوست اور چچازاد بھائی ابوقتادہؓ کے پاس گیا، میں نے جا کر سلام کیا لیکن اس خدا کے بندے نے سلام کا جواب تک نہ دیا۔ میں نے پوچھا ابو قتادہؓ! تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، بتائو کیا مجھے خدا اور اس کے رسولﷺ سے محبت نہیں ہے؟ وہ خاموش رہے۔ میں نے پھر پوچھا۔ لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ تیسری بار جب میں نے قسم دے کر پوچھا تو بس انہوں نے اتنا کہا’’خدا اور خدا کے رسولﷺ بہتر جانتے ہیں‘‘۔ میرا دل بھر آیا اور میری آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے اور میں اپنا غم لیے ہوئے واپس آ گیا۔

                انہی دنوں بازار میں شام کے ایک تاجر نے مجھے ’’شاہ غسان‘‘ کا ایک خط دیا۔ عیسائیوں کے اس بادشاہ نے لکھا تھا۔ ہم نے سنا ہے کہ تمہارے صاحب تم پر بہت ہی ستم توڑ رہے ہیں تم کوئی ذلیل آدمی تو ہو نہیں۔ تمہاری قدر ہم جانتے ہیں تم ہمارے پاس آئو ہم تمہارے ساتھ تمہارے مرتبہ کے لائق سلوک کریں گے۔ خط دیکھتے ہی میری زبان سے نکلا یہ ایک اور مصیبت نازل ہوئی۔ اور اسی وقت اس خط کو میں نے چولہے میں جھونک دیا۔

                چالیس دن اس حالت میں گزر چکے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرستادہ نبیﷺ کا یہ حکم لے کر آیا کہ اپنی بیوی سے بھی علیحدہ ہو جائو۔ میں نے پوچھا طلاق دے دوں؟ جواب ملا نہیں، بس الگ رہو اور میں نے اپنی بیوی کو میکے روانہ کر دیا اور اس خدا کی بندی سے کہہ دیا کہ اب تم بھی خدا کے فیصلے کا انتظار کرتی رہو۔

                پچاسویں دن میں فجر کی نماز کے بعد اپنی جان سے بیزار نہایت ہی مایوس اور غمزدہ اپنے مکان کی چھت پر بیٹھا ہوا تھا کہ یکایک کسی نے پکار کر کہا’’کعب! مبارک ہو۔‘‘ یہ سنتے ہی میں سمجھ گیا اور اپنے خدا کے حضور سجدے میں گر پڑا۔ پھر تو لوگوں کا تانتا بندھ گیا۔ فوج در فوج میرے پاس مبارکباد دینے کیلئے آنے لگے۔ میں اٹھا اور سیدھا نبیﷺ کے پاس مسجد میں پہنچا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ نبیﷺ کا چہرہ خوشی سے چمک رہا ہے۔ میں نے آگے بڑھ کر سلام کیا تو نبیﷺ نے فرمایا۔ کعب! مبارک ہو۔ یہ تمہاری زندگی کا سب سے بہترین دن ہے۔ میں نے کہا حضورﷺ! یہ معافی آپﷺ کی طرف سے ہے یا خدا کی طرف سے؟ فرمایا۔ خدا کی طرف سے اور سورہ توبہ کی آیتیں پڑھ کر سنائیں۔

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔