Topics

جنوری 1991؁۔ الٰہی مشن

ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حرم کعبہ میں اعلان فرمایا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ عبادت اور بزرگی صرف ایک ذات واحد اللہ کو زیب دیتی ہے۔ وہی ہے جس نے آسمان بنائے اور زمین بنائی۔ وہی ہے جو تمہیں رزق فراہم کرتا ہے۔ وہی پاک اور اعلیٰ ہستی ہے جو تمہارے اوپر موت(نیند) طاری کر  کے تمہیں دوبارہ بیدار کر دیتی ہے۔ وہی ہے جو تمہیں مرنے کے بعد اعمال کی سزا اور جزا کے لئے دوبارہ زندہ کر دے گی۔

                مشرکین کے نزدیک حرم کعبہ کی یہ سب سے بڑی توہین تھی۔ اعلان کا ہونا تھا کہ حرم کعبہ اور مکہ میں ایک ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوا۔ بتوں کو خدا ماننے والے اور باطل کے سائے میں زندگی گزارنے والے لوگ ہر طرف سے آپﷺ پر ٹوٹ پڑے۔ حضرت حارثؓ بن ابی ہالہ آپﷺ کو بچانے کے لئے دوڑے لیکن ان پر اتنی زیادہ تلواریں بجلی بن کر گریں کہ وہ شہید ہو گئے۔

                الٰہی مشن کی دعوت کا یہ پہلا اعلان تھا جو قریش کے لئے اس لئے پریشانی کا موجب تھا کہ ان کی عزت کعبہ کی تولیت کی وجہ سے تھی۔ جس کعبہ میں تین سو ساٹھ بُت رکھ دیئے گئے تھے۔ تین سو ساٹھ بتوں کے محافظ کی حیثیت سے سارے عرب پر ان کی اجارہ داری تھی۔ مذہبی معاملات میں اہل عرب ان کی طرف نہ صرف دیکھتے تھے بلکہ ان کی رہنمائی پر اعتماد کرتے تھے۔ وحدانیت کے اعلان سے ان کی چودھراہٹ ختم ہو جانے کا اندیشہ لاحق ہو گیا تھا۔ باپ دادا کے ورثے بت پرستی کو اس لئے نہیں چھوڑ سکتے تھے کہ جاہل قوم کو ان سے اندھی عقیدت تھی۔ قریش کے صاحب اقتدار لوگوں کو یہ صاف نظر آ رہا تھا کہ ا س دعوت کے پھیلنے سے ان کا اقتدار ختم ہو جائے گا اور ان کی حاکمیت مٹی میں مل جائے گی۔ انہیں جو مذہبی قیادت حاصل ہے اس سے وہ محروم ہو جائیں گے۔ اس نقطۂ نظر سے جو جتنا بڑا مُجاور اور گدّی نشین تھا اتنا ہی بڑا مخالف بن گیا۔ ظاہر ہے کہ ان کے اندر برائیوں اور خامیوں پر مذہبی اجارہ داری نے پردہ ڈال رکھا تھا۔ توحید کے اعلان کا مطلب یہ تھا کہ مشرکین کی کمزوریاں ان کے اندر سے نکل کر عوام کے سامنے آ جائیں۔ مشرکین جانتے تھے کہ ان کی کمزوریاں ظاہر ہو جانے سے عوام ان کے خلاف اعلان بغاوت کر دیں گے۔ چنانچہ مشرکین نے اپنے جھوٹے اقتدار کی حفاظت کرنے اور خود کو بچانے کے لئے ابلیسی تدابیر اختیار کرنا شروع کر دیں۔

                الٰہی مشن اور توحید کی دعوت کا مذاق اڑایا گیا۔ الزامات لگائے گئے۔ دشنام طرازی اور پھبتیوں سے اذیت پہنچائی گئی۔ مجنوں اور پاگل کا خطاب دیا گیا۔ شاعر اور جادوگر کہہ کر قدر و منزلت کو کم کرنے کی کوشش کی گئی۔ الٰہی مشن کے نگران اعلیٰ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ان سب اذیتناک باتوں کو برداشت کرتے ہوئے مشن کی ترویج میں ہمہ تن مصروف رہے۔ اللہ نے ہر ہر قدم پر اپنے محبوبﷺ کا ساتھ دیا۔ اپنے محبوبﷺ کی دلجوئی کے لئے سورۃ قلم میں فرمایا:

                ’’آپﷺ پر اللہ کا بڑا کرم ہے۔ آپﷺ مجنوں نہیں۔ آپﷺ پر تو اللہ کی بے انتہا عنایات ہیں۔ جلد ہی معلوم ہو جائے گا کہ کس کی عقل ٹھکانے نہیں ہے۔ آپﷺ کو خوب معلوم ہے کہ کون سیدھے راستے پر ہے اور کون بھٹکا ہوا ہے۔ آپﷺ اپنا کام کئے جایئے۔ جو لوگ اس دعوت کو جھٹلاتے رہے ہیں ان کا کہا ہرگز نہ مانیئے۔ وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ اگر آپﷺ اپنی دعوت کے کام کو ذرا کمزور کر دیں تو وہ بھی اپنی ریشہ دوانیوں کو کم کر دیں……لیکن آپﷺ کا یہ کام نہیں کہ آپﷺ ان لوگوں کی خواہشات کو پورا ہونے دیں۔ میرے مشن کے لئے جو کچھ آپﷺ کر رہے ہیں اس کو نہ ماننے کا معاملہ آپﷺ میرے اوپر چھوڑ دیں۔ انہیں جلد ہی معلوم ہو جائے گا۔ انہیں جو ڈھیل دی جا رہی ہے اس کا کیا مطلب ہے۔ آپﷺ ان سے کہہ دیجئے کیا میں تم سے کچھ طلب کرتا ہوں۔ اپنے فائدے کے لئے تم سے کچھ چاہتا ہوں یا میری بات کے خلاف تمہارے پاس کوئی معقول ثبوت ہے۔ ظاہر ہے ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ لہٰذا آپﷺ نہایت مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے کام پر جمے رہیئے۔ آپﷺ اور آپﷺ کے ساتھی ان حالات کا مقابلہ نہایت صبر کے ساتھ کرتے رہیں۔ حالات اپنے وقت پر بدلیں گے۔‘‘

                مشرکین مکہ نے غلط تاویلات کے ساتھ لوگوں کو الٰہی مشن سے جتنا روکنا چاہا لوگوں کے اندر اتنا ہی اشتیاق بڑھا اور لوگ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے۔ جب یہ چرچا دوسرے شہروں میں پھیلا تو دور دراز علاقوں سے لوگ الٰہی مشن کو جاننے اور سمجھنے کے لئے آنے لگے اور ایک وقت ایسا آیا کہ مشرکین نے مایوس ہو کر طے کیا کہ سختی سے نہیں نرمی اور مصلحت سے اس مشن کو ناکام بنایا جائے۔

                پوچھا گیا۔ اے محمدﷺ تم چاہتے کیا ہو؟ مکہ کی حکومت کسی اعلیٰ گھرانے میں شادی یا دولت کے ڈھیر……یہ سب ہم تمہارے لئے مہیا کر دیتے ہیں۔ ہم اس پر راضی ہیں کہ مکہ کی آبادی تمہارے زیر فرمان کر دی جائے اور تمہیں حاکم تسلیم کر لیا جائے یا جو کچھ اور چاہو وہ پورا کر لیا جائے۔ شرط صرف یہ ہے کہ تم الٰہی مشن کی دعوت سے باز آ جائو۔ ہمارے بتوں کی نفی نہ کرو۔

                اس کے جواب میں اللہ کے محبوبﷺ نے قرآن کی چند آیتیں تلاوت کیں جس میں توحید اور دعوت اور اپنی رسالت کی وضاحت تھی۔

                قاصد عتبہ یہ سن کر واپس ہو گیا اور اس نے قریش کے سرداروں سے کہا:

                محمدﷺ جو کلام پیش کر رہے ہیں وہ شاعری نہیں۔ میری رائے ہے کہ تم ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو۔ لیکن مشرکین کی ضد اور ہٹ دھرمی سے نئی طرز فکر، نئی تحریک اور شیطانی طرز فکر اور شرک کے درمیان ایک سخت کشمکش شروع ہو گئی۔ جو لوگ پرانے مذہب سے چمٹے رہنا چاہتے تھے انہوں نے پوری طرح مخالفت کی اور الٰہی مشن کو مٹا ڈالنے کے لئے وحشیانہ ظلم و ستم ڈھائے۔ مگر الٰہی مشن کے متوالے، توحید و رسالت کے پروانے اور رسول اللہﷺ کے پیروکار جمے رہے۔ اور ایک وقت ایسا آیا کہ الٰہی مشن کامیاب ہو گیا۔ قرآن نے اعلان کیا حق آیا اور باطل مٹ گیا۔ بیشک باطل کو مٹنا ہی تھا۔

                حق آشنا شمع رسالت کے پروانے جب تک اپنے اسلاف کے نقوش و قدم پر چلتے رہے عروج کی منزلیں ان کے قدم چھوتی رہیں۔ آسمانوں میں فرشتوں کی معاونت ان کے ساتھ رہی۔ اللہ کا انعام ان کے اوپر بارش برساتا رہا……اور جب امت مسلمہ نے غیروں کے بچھائے ہوئے شیطانی اور طلسماتی جال میں خود کو گرفتار کر لیا اور تین سو ساٹھ بتوں کے بجائے ہزاروں بتوں کی پرستش ہونے لگی تو دنیا پرستی، اقتدار پرستی، انا پرستی اور ہوس زر نے امت کے شیراز ے کو بکھیر دیا۔ قوم تفرقوں میں بٹ گئی۔ نفرتوں نے اپنا جادو جگا دیا۔ بھائی، بھائی کا دشمن بن گیا۔ جیسے ہی یہ سب کچھ ہوا قوم کے ہاتھ سے اللہ کی رسی چھوٹ گئی۔

                اللہ کی سنت جاری رہتی ہے۔ اس میں تبدیلی واقع ہوتی ہے اور نہ تعطل واقع ہوتا ہے۔ اللہ چاہتا ہے کہ اس کا مشن جاری رہے۔ اس کے محبوبﷺ کا نام روشن رہے۔ اس لئے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے نام کی ضوفشانیوں سے آسمانوں کی قندیلیں روشن ہیں۔ اسی نام کی برکت ہے کہ زمین نور علی نور ہے۔ زمین کا ہر ذرہ نور ہے، روشنی ہے اور نظارہ ہے۔

                چودہ سو سال کی زبوں حالی اور سخت جانی کو ختم کرنے کے لئے محبوب خداﷺ کے پیارے، ان کے لخت جگر حسن اُخریٰ محمد عظیم برخیاؔ ابدال حق قلندر بابا اولیائؒ تشریف لائے۔ آپؒ نے قوم کو جگانے، امت کو سنوارنے اور ملت کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرانے کے لئے الٰہی مشن کی ترویج و ترقی اور تجدید کے لئے ایک پروگرام بنایا۔

                مخالفت کا ایک طوفان اٹھا۔ کہنے والوں نے مخبوط الحواس کہا۔ کسی نے مالیخولیا کا مریض قرار دیا۔ جادوگر کا الزام دیا گیا۔ گالیوں کے ساتھ کہا گیا۔ اسلام میں مراقبے کی پیوند کاری کی گئی ہے۔ ٹھٹھول اور مذاق کا ہدف بنایا گیا۔ والدین نے اولاد کو تنبیہہ کی کہ اس الٰہی مشن کے کارندوں کے ساتھ تمہارا اٹھنا بیٹھنا ہمارے لئے ناقابل برداشت ہے۔ بیویوں نے شوہروں کو روکا کہ ایک کا انتخاب کریں ہمیں چھوڑ دیں یا اس مشن کے داعی کو چھوڑ دیں۔ مائووں نے اولاد کو عاق کر دیا اور دودھ معاف نہ کرنے کی دھمکیاں دیں۔ ہر طرف ایک ہی سوال تھا کہ غرض اور صلہ و ستائش کی تمنا کے بغیر خدمت خلق کیسے ہو سکتی ہے۔ یہ دیوانے لوگ اپنا وقت کیوں ضائع کرتے ہیں۔ غرض کے بغیر نوع انسانی میں سکون کیوں بانٹنا چاہتے ہیں۔

                اس مشن کے پروانے اپنا کام کرتے رہے۔ مشن کے نگران اعلیٰ اور رسول اللہﷺ کی اولاد اور ان کے علوم کے وارث ابدال حق قلندر بابا اولیائؒ  کے پیغام کو عام کرتے رہے……وہ اذان دیتے رہے اور اذان دے رہے ہیں کہ……روح کے عرفان کے بغیر عزت نفس نہیں ملتی۔ روح کے عرفان کے بغیر سکون نہیں ملتا……اور روح کے عرفان کے بغیر قوم اپنے اسلاف کے ورثے (حاکمیت) کو حاصل نہیں کر سکتی……بلاشبہ قلندر بابا اولیائؒ کے اس مشن میں کامیابی کے لئے تن من دھن سے کوشش کرنا ہمارا اعزاز ہے……

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔