Topics

جنوری 1987؁ء۔قرب نوافل

جس شخص کی روح میں فطری طور پر انسلاخ واقع ہوتا ہے اس کو لطائف کے رنگین کرنے کی جدوجہد میں کوئی خاص کام نہیں کرنا پڑتا یعنی کسی خاص واقعہ یا حادثہ کے تحت جو محض ذہنی فکر کی حدود میں رونما ہوا ہے، اس کے باطن میں توحید افعال منکشف ہو جاتی ہے۔ وہ ظاہری اور باطنی طور پر کسی علامت کے ذریعے یا کوئی نشانی دیکھ کر یہ سمجھ جاتا ہے کہ پس پردہ نور غیب میں ایک تحقیق موجود ہے اور اس تحقیق کے اشارے پر عالم مخفی کی دنیا کام کر رہی ہے اور اس عالم مخفی کے اعمال و حرکات و سکنات کا سایہ یہ کائنات ہے۔ قرآن پاک میں جہاں اس کا تذکرہ ہے کہ اللہ اسے اُچک لیتا ہے وہ اس ہی کی طرف اشارہ ہے۔

                ذات باری تعالیٰ سے نوع انسانی یا نوع اجنہ کا ربط دو طرح پر ہے۔ ایک طرح جذب کہلاتی ہے اور دوسری طرح علم۔ صحابہ کرامؓ کے دور میں اور قرون اُولیٰ میں جن لوگوں کو مرتبۂ احسان حاصل تھا ان کے لطائف حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت سے رنگین تھے۔ انہیں ان دونوں قسم کے ربط کا زیادہ علم نہیں تھا۔ ان کی توجہ زیادہ تر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق غور و فکر میں صرف ہوتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے روحانی قدروں کے جائزے زیادہ نہیں لئے کیونکہ ان کی روحانی تشنگی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اقوال پر توجہ صرف کرنے سے رفع ہو جاتی تھی۔ ان کو احادیث میں بہت زیادہ شغف تھا۔ اس انہماک کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں کے ذہن میں احادیث کی صحیح ادبیت، ٹھیک مفہوم اور پوری گہرائیاں موجود تھیں۔ احادیث پڑھنے کے بعد اور احادیث سننے کے بعد وہ احادیث کے انوار سے پورا استفادہ کرتے تھے۔ اس طرح انہیں الفاظ کے نوری تمثلات کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔

                وہ الفاظ کے نوری تمثلات سے بغیر کسی تعلیم اور بغیر کسی کوشش کے روشناس تھے۔

                جب مجھے عالم بالا کی طرف رجوع کرنے کے مواقع حاصل ہوئے تو میں نے یہ دیکھا کہ صحابہ کرامؓ کی ارواح میں ان کے ’’عین‘‘ قرآن پاک کے انوار اور احادیث کے انوار یعنی نور قدس اور نور نبوت سے لبریز ہیں۔ جس سے میں نے اندازہ لگایا کہ ان کو لطائف کے رنگین کرنے میں جدوجہد نہیں کرنا پڑتی تھی۔ اس دور میں روحانی قدروں کا ذکر و فکر نہ ہونا اور اس قسم کی چیزوں کا تذکرہ میں نہ پایا جانا غالباً اس ہی وجہ سے ہے۔ البتہ تبع تابعین کے بعد لوگوں کے دلوں سے قرآن پاک کے انوار اور احادیث کے انوار معدوم ہونے لگے۔ اس دور میں لوگوں نے ان چیزوں کی تشنگی محسوس کر کے وصول الی اللہ کے ذرائع تلاش کئے۔

                چنانچہ شیخ نجم الدینؒ اور ان کے شاگرد مثلاً شیخ شہاب الدین سہروردیؒ، خواجہ معین الدین چشتیؒ ایسے لوگ تھے جنہوں نے قرب نوافل کے ذریعے وصول الی اللہ کی طرزوں میں لاشمار اختراعات کیں اور طرح طرح کے اذکار و اشغال کی ابتدا کی۔ یہ چیزیں شیخ حسن بصریؒ کے دور میں نہیں ملتیں۔ ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ سے وہ ربط تلاش کیا جس کو علمی ربط کہا جا سکتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی صفات کے جاننے میں ان لوگوں نے انہماک حاصل کیا اور پھر ذات کو سمجھنے کی قدریں قائم کیں۔

                از ’’لوح و قلم‘‘ تصنیف قلندر بابا اولیائؒ

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔