Topics
اللہ پاک نے جب کائنات کے بنانے کا
ارادہ کیا تو کائنات کا ایک نظام بھی زیر بحث آیا۔ اس لئے کہ کارخانۂ قدرت کسی
مبسوط نظام ، قاعدوں اور ضابطوں کے بغیر نہیں چلتا۔ قرآن کہتا ہے کہ
’’اس
کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی شئے کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے کہ وجود میں آجا اور
وہ شئے تخلیقی عوامل سے گزر کر وجود میں آ جاتی ہے۔‘‘ (سورہ یٰسین)
قرآن
نوع انسانی کو اس تفکر کی طرف مائل کرتا ہے کہ نظام چلانے کے لئے کارندوں کی ضرورت
پیش آتی ہے۔
ہم
دیکھتے ہیں کہ کائنات مادی، برقی، مقناطیسی اور سائنسی قوانین قدرت کا مجموعہ ہے۔
ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ قوانین مظاہر قدرت اور مناظر کائنات پر بہرحال حاوی ہیں۔
کائنات میں ہر شئے ایک نظام کے تحت ایک دوسرے کے ساتھ ہم رشتہ اور ایک دوسرے سے
متعارف ہے۔ کائنات کا کوئی یونٹ کسی دوسرے یونٹ سے اپنا رشتہ منقطع نہیں کر سکتا۔
قرآن
کریم ان تمام مناظر کو جو کائنات کے کل پرزے ہیں۔ اللہ کی نشانیاں قرار دیتا ہے۔
اور نوع انسانی کے لئے لازم کرتا ہے کہ نوع انسانی کے عاقل اور بالغ شعور افراد
اللہ کے ان تمام زمینی اور آسمانی مناظر اور مظاہر کا مطالعہ کریں اور عقل و دانش
کی گہرائیوں سے ان آیات پر غور و تفکر کریں۔ اللہ چاہتا ہے کہ اس کے بندے گونگے،
بہرے رہ کر زندگی نہ گزاریں۔ خالق چاہتا ہے کہ غور و فکر سے متعلق اللہ تعالیٰ نے
بندہ کو جو صلاحیتیں دی ہیں ان کو استعمال کیا جائے۔
آپﷺ
کہہ دیجئے۔ مشاہدہ کرو جو کچھ کہ ہے آسمانوں اور زمین میں…
کیا
تم مشاہدہ نہیں کرتے؟
کیا
تم غور و فکر نہیں کرتے؟
کیا
تم تدبر نہیں کرتے؟
خداوند
قدوس کی نظر میں بدترین مخلوق وہ لوگ ہیں جو گونگے بہرے ہیں یعنی گونگے بہروں کی
سی زندگی بسر کرتے ہیں اور عقل و تدبر سے کام نہیں لیتے۔ (قرآن)
بیشک
آسمانوں اور زمین میں آسمان والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ اور تمہاری پیدائش میں
بھی اور جانوروں میں بھی جن کو وہ پھیلاتا ہے۔ یقین کرنے والوں کے لئے نشانیاں
ہیں( (الجاثیہ)
اے
دیکھنے والے کیا تو رحمٰن کی آفرینش میں کچھ نقص دیکھتا ہے۔ ذرا آنکھ اٹھا کر
دیکھ بھلا تجھے کوئی شگاف نظر آتا ہے۔ پھر دوبارہ نظر کر ہر بار تیرے پاس ناکام
اور تھک کر لوٹ آئے گی۔ (الملک)
اوروہی
تو ہے جس نےسورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا۔ اور چاند کی منزلیں مقرر کیں تا
کہ تم رسول کا شمار اور کاموں کا حساب معلوم کرو۔ یہ سب کچھ خدا نے تدبیر سے پیدا
کیا۔ سمجھنے والوں کے لئے وہ اپنی آیتیں کھول کر بیان کرتا ہے۔ (یونس)
تسخیر
کائنات سے متعلق قرآنی آیتوں سے یہ بات روشن دن کی طرح ثابت ہے کہ کائنات کے
بنانے والے نے حکم دیا ہے کہ انسان تخلیق کائنات کے قوانین کا اس انہماک اور غور و
فکر سے مطالعہ کرے کہ ہر چیز کی کاریگری سامنے آ جائے۔ تخلیقی فارمولوں پر غور
کرنے والا طالب علم جب انہماک کے نقطہ عروج میں داخل ہو جاتا ہے تو اس کے اوپر
ایسے ایسے علوم منکشف ہوتے ہیں جن علوم کی ابتداء لامحدودیت سے ہوتی ہے اور ایسے
طالب علم کا علم محض کتابوں تک محدود نہیں رہتا۔ اور وہ اسلاف کی بنائی ہوئی دہلیز
پر بیٹھا ہوا مکان کی اینٹیں شمار نہیں کرتا رہتا۔ وہ تدبر اور تفکر کی کسوٹی پر
مشاہدہ اور تجزیہ کر کے یہ جان لیتا ہے کہ فضائے بسیط میں گیسوں کا آمیزہ زمین کو
زندگی بخشتا ہے۔ بارش اور ہوائوں کا انتظام۔ کاربن۔ آکسیجن وغیرہ کا مشاہدہ اس کے
لئے ایک عام بات بن جاتی ہے۔ وہ یہ بھی جان لیتا ہے کہ کرہ ارض کا حجم مناسب اور
معین مقداروں پر قائم ہے۔ اگر حجم زیادہ ہوتا تو کشش ثقل کی زیادتی کی وجہ سے ہوا
(کاربن ڈائی آکسائیڈ) خلا میں منتشر ہونے کی بجائے زمین کی سطح سے آ چمٹتی اور
ذی روح ہر مخلوق کا سانس لینا دشوار ہو جاتا۔ اور اگر کرہ ارض کا حجم موجودہ معین
مقداروں سے کم ہوتا تو کشش ثقل کی وجہ سے ہوا (آکسیجن) خلا میں اڑ جاتی اور تمام
ذی روح فنا کے گھاٹ اتر جاتے……
یہ
بات مشاہدے میں آ جاتی ہے کہ چاند اور سورج سے زمین کا فاصلہ بھی معین مقداروں پر
قائم ہے۔ اگر زمین سورج سے معین مقداروں کی نسبت زیادہ دور ہوتی تو تمام کرہ یخ
بستہ ہوتا۔ برف کی دبیز سلوں کے علاوہ زمین پر کسی چیز کا وجود نہ ہوتا … اور اگر یہ فاصلہ معین مقداروں سے کم ہوتا تو
سورج کی تپش فصلوں کو جلا کر راکھ کر دیتی…چاند اور زمین کے فاصلے میں اگر معین
مقداریں ٹوٹ جائیں تو مدوجزر کی لہریں اتنی بلند ہو جائیں گی کہ ساری زمین سمندر
کی طوفانی لہروں میں غرق ہو جائے گی۔
کائنات
میں تفکر کرنے والا بندہ اور روحانی سائنس کا طالب علم اپنے مشاہدہ اور تجزیہ کی
بنا پر اس مقصد سے آشنا ہوتا ہے کہ
کائنات
میں عناصر کی تربیت، ہم ااہنگی نظام افادیت و مقصدیت کور چشم شعور کی کارفرمائی
نہیں ہے۔ کوئی طاقت ہے کوئی ایسی ہستی ہے جس کے حکم پر ازل تا ابد نظام حیات و
کائنات قائم ہے۔ اور اس سارے نظام میں تمام عناصر تمام مناظر اور سب مظاہر معین
مقداروں پر قائم رہتے ہوئے ایک دوسرے سے ہم آہنگ اور ہم رشتہ ہیں…
پاک
اور بلند مرتبہ ہے وہ ذات جس نے تخلیق کیا معین مقداروں کے ساتھ اور ہدایت بخشی۔
(الاعلیٰ)
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔