Topics
ایک بار حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے
پاس ایک آدمی آیا اور اپنے باپ کی شکایت کرنے لگا کہ وہ جو چاہتے ہیں میرا مال
لے لیتے ہیں۔ نبیﷺ نے اس آدمی کے باپ کو طلب فرمایا۔ لاٹھی ٹیکتا ہوا ایک بوڑھا
اور کمزور شخص حاضر خدمت ہوا۔ آدمی نے جو شکایت کی تھی آپﷺ نے بوڑھے شخص کو
بتائی تو اس نے کہا:
’’خدا
کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم! ایک زمانہ تھا جب یہ کمزور اور بے بس تھا اور مجھ
میں طاقت تھی، میں مالدار تھا اور یہ خالی ہاتھ تھا، میں نے کبھی اس کو اپنی چیز
لینے سے نہیں روکا۔ آج میں کمزور ہوں اور یہ تندرست اور قوی ہے، میں خالی ہاتھ
ہوں اور یہ مالدار ہے۔ اب یہ اپنا مال مجھ سے بچا بچا کے رکھتا ہے۔‘‘
بوڑھے
باپ کی یہ باتیں سن رحمت عالمﷺ رو پڑے اور بوڑھے کے لڑکے کی طرف مخاطب ہو کر
فرمایا:
’’توخود
اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے۔‘‘
ماں
باپ اگر غیر مسلم ہوں تب بھی ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے۔ ادب و احترام کے ساتھ
ان کی خدمت کرتے رہئے۔ البتہ اگر وہ شرک اور معصیت کو حکم دیں تو ان کی اطاعت سے
انکار کر دیجئے۔
’’اگر
ماں باپ دبائو ڈالیں کہ میرے ساتھ کسی کو شریک بنائو جس کا تمہیں کوئی علم نہیں ہے
تو ہرگز ان کا کہنا نہ مانو اور دنیا میں ان کے ساتھ نیک سلوک کرتے رہو۔‘‘
حضرت
اسمائؓ فرماتی ہیں کہ نبیﷺ کے عہد مبارک میں میرے پاس میری والدہ تشریف لائیں اس
وقت وہ مسلمان نہیں تھیں۔ میں نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ میری والدہ آئیں ہیں
اور وہ اسلام سے متنفر ہیں، کیا میں ان کے ساتھ حسن سلوک کروں؟ آپﷺ نے فرمایا۔
’’ہاں۔ تم اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرتی رہو۔‘‘
باپ
کے مقابلے میں ماں کے احسانات اور قربانیاں بہت زیادہ ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے
ماں کا حق باپ سے زیادہ متعین کیا ہے اور ماں کے ساتھ حسن سلوک کی خصوصی ترغیب دی
ہے۔
قرآن
پاک میں ارشاد ہے:
’’اور
ہم نے انسان کو ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرنے کی تاکید کی ہے۔‘‘
اس
کی ماں تکلیف اٹھا کر اس کو پیٹ میں لئے پھری۔ اور اس نے ولادت میں جان لیوا تکلیف
برداشت کی اور پیٹ میں اٹھانے اور دودھ پلانے کی یہ مدت ڈھائی سال ہے۔
ماں
باپ کی پر خلوص خدمات کا اعتراف کرنے اور ان کے احسانات کو یاد رکھنے کے لئے دل
سوزی اور رقت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور رحم و کرم کی درخواست گزاریئے۔
اللہ
تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اور
دعا کرو کہ پروردگار ان دونوں پر رحم فرما جس طرح ان دونوں نے بچپن میں میری پرورش
کی تھی۔‘‘
اے
پروردگار! جس رحمت و محبت ، تکلیف اورجانفشانی سے انہوں نے پرورش کی اور میری خاطر
اپنے شب و روز میرے اوپر نثار کر دیئے تو بھی ان کے حال پر نظر کرم فرما۔
اے
خدا! اب یہ بوڑھاپے کی کمزوری اور بے بسی میں مجھ سے زیاہ خود رحمت و شفقت کے
محتاج ہیں۔ پروردگار میں ان کی خدمت کا کوئی بدلہ نہیں دے سکتا۔ تو ہی ان کی
سرپرستی فرما اور ان کے اوپر اپنی رحمتوں کی بارش برسا دے۔
نبی
مکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد عالی مقام ہے:
تین
باتیں ہلاکت میں مبتلا کر دیتی ہیں:
۱۔ ایسی خواہش انسان جس کا
غلام بن کر رہ جائے۔
۲۔ ایسی حرص جس کو پیشوا
مان کر آدمی اس کی پیروی کرنے لگے۔
۳۔ خود پسندی…اور یہ
بیماری سب سے زیادہ خطرناک ہے۔
احتساب
ایک ایسا عمل ہے جو تمام فاسد مادوں سے انسان کو پاک کر دیتا ہے۔ قوم میں توانائی
اور زندگی کی روح پھونک دیتا ہے۔ اچھا دوست وہ ہے جو دوستوں کے احتساب پر خوش ہو۔
اور اپنی اصلاح کی کوشش کرے لیکن ساتھ ہی یہ عمل اختیار کرنا بھی ضروری ہے کہ اگر
دوستوں کے دامن پر دھبے نظر آئیں تو ان کا اظہار اس طرح نہ کیا جائے کہ دوست کے
دل پر میل آ جائے۔ داغ دھبوں کو دھونے کی حکیمانہ تدبیریں بہترین دوستی ہے۔ جہاں
آپ دوسروں کی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں۔ وہاں اپنے دوستوں کو یہ موقع بھی دیجئے کہ
وہ آپ کے اندر اٹھتے ہوئے تعفن اور کثافت کو آپ کے اوپر نمایاں کریں۔ اور جب وہ
یہ تلخ فریضہ ادا کریں تو انتہائی عالی ظرفی، خوش دلی اور احسان مندی سے ان کی
تنقید کا استقبال کیجئے اور ان کے اخلاص و کرم کا شکریہ ادا کیجئے۔ رسول برحق صلی
اللہ علیہ و سلم نے اس مثالی دوستی کو آئینہ سے تشبیہہ دی ہے۔
’’تم
میں سے ہر ایک اپنے بھائی کا آئینہ ہے۔ پس اگر وہ اپنے بھائی میں کوئی خرابی
دیکھے تو اسے دور کر دے۔‘‘ (حدیث)
روحانی
قانون کے تحت ہر آدمی ایک آئینہ ہے۔ آئینہ کی شان یہ ہے کہ جب آدمی آئینہ کے
سامنے کھڑا ہوتا ہے تو آئینہ تمام داغ دھبے اپنے اندر جذب کر کے نظر کے سامنے لے
آتا ہے۔ اور جب آدمی آئینہ کے سامنے سے ہٹ جاتا ہے تو آئینہ اپنے اندر جذب کئے
ہوئے یہ دھبے یکسر نظر انداز کر دیتا ہے۔ جس طرح آئینہ فراخ حوصلہ ہے آپ بھی اسی
طرح اپنے دوست کے عیوب اس وقت واضح کریں جب وہ خود کو تنقید کے لئے آپ کے سامنے
پیش کر دے اور فراخ دلی سے تنقید و احتساب کا موقع دے۔ نصیحت کرنے میں ہمیشہ نرمی
اور خوش اخلاقی کا مظاہرہ کیجئے۔ اگر آپ یہ محسوس کر لیں کہ اس کا ذہن تنقید
برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے تو اپنی بات کو کسی اور موقع کے لئے اٹھا رکھیں۔
اس کی غیر موجودگی میں آپ کی زبان پر کوئی ایسا لفظ نہ آئے جس سے اس کے عیب آپ
کے سامنے آئیں صرف ان ہی کی نشاندہی کیجئے۔ پوشیدہ عیبوں کے تجسس اور ٹوہ میں نہ
لگئے۔ پوشیدہ عیبوں کو کریدنا بدترین، تباہ کن اور اخلاق سوز عیب ہے۔
نبی
کریم صلی اللہ علیہ و سلم ایک بار منبر پر چڑھے اور بلند آواز میں حاضرین مجلس کو
تنبیہ فرمائی:
’’مسلمانوں
کے عیوب کے پیچھے نہ پڑو۔ جو شخص اپنے مسلمان بھائیوں کے پوشیدہ عیوب کے درپے ہوتا
ہے تو پھر خدا اس کے چھپے ہوئے عیوب کو طشت ازبام کر دیتا ہے۔ اور جس کے عیب افشاء
کرنے پر خدا متوجہ ہو جائے تو اس کو رسوا کر کے ہی چھوڑتا ہے اگرچہ وہ اپنے گھر کے
اندر گھس کر ہی بیٹھ جائے۔‘‘
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔