Topics
’’تم بہترین امت ہو جو سارے انسانوں
کے لئے وجود میں لائی گئی ہے۔ تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور
خدا پر کامل ایمان رکھتے ہو۔‘‘ (آل عمران)
’’کیا
تم لوگوں کو نیکی کی تلقین کرتے ہو اور خود کو بھول جاتے ہو۔‘‘ (البقرہ)
’’تم
وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو۔‘‘ (الصف)
پیغام
توحید کی تبلیغ ک ے ساتھ ساتھ ہمیں اس بات پر بھی غور کرنا ہو گا کہ کہیں ایسا تو نہیں
کہ ہم جس غلط روش سے لوگوں کو بچنے کی تلقین کر رہے ہیں اور اس کے بُرے نتائج سے انہیں
خبردار کر رہے ہیں، ہم خود دانستہ یا غیر دانستہ طور پر اسی راہ پر چل رہے ہوں۔
اللہ
کے راستے کی طرف دعوت دینے میں ہماری بات میں اسی وقت تاثر پیدا ہو گا جب ہم خود اس
دعوت اور تعلیم کا نمونہ ہوں اور ہمارا رابطہ اللہ کے ساتھ ویسا ہی ہو جو ایک حقیقی
بندے کا اپنے رب سے ہوتا ہے۔
خدمت
اور قلبی لگائو ایک ایسا عمل ہے کہ آدمی نہ چاہتے ہوئے بھی دوست بن جاتا ہے۔ اپنے
مذہب کی تبلیغ حکمت کے ساتھ کیجئے۔ جس مسلک اور جس عقیدے پر وہ قائم ہے براہ راست اس
پر تنقید و تبصرہ نہ کیجئے۔ پہلے کوشش کی جائے کہ وہ آپ کو اپنا ہمدرد اور محسن سمجھے۔
اس لئے ضروری ہے کہ دامے، درمے، قدمے، سخنے اس کی خدمت کی جائے۔ جب آپ کے اوپر اس
کا اعتماد بحال ہو جائے، نہایت نرم اور شیریں لہجے میں اسے نصیحت کیجئے کوئی بات سمجھنے
کے لئے وہ بحث و مباحثہ کرے تو اپنے مقدور بھر اس کے سوالات کا شافی جواب دیجئے۔
بات
کرتے وقت مخاطب کی صلاحیت کو ہرگز نظر انداز نہ کیجئے۔ ان حقیقتوں کو باہم افہام و
تفہیم کے ساتھ دعوت کی بنیاد بنایئے جن میں اتفاق ہو اور جو آپس میں رشتہ محبت کی
راہ ہموار کریں۔ تبلیغ کی گراں بہا دولت کو جلد بازی، نادانی اور جھنجھلاہٹ سے ضائع
نہ کیجئے۔ ہر طبقے، ہر گروہ اور ہر فرد سے اس کی فکری رسائی، استعداد، صلاحیت، ذہنی
کیفیت اور سماجی حیثیت کے مطابق بات کیجئے۔ ضد، ہٹ دھرمی، نفرت اور تعصب کے جذبات سے
ہمیشہ اپنا دامن بچائے رکھئے اور جہاں یہ کیفیتیں پیدا ہوتی نظر آئیں اپنی زبان بند
کر لیجئے اور اس محفل سے اٹھ جایئے۔
نورِ نبوت
سیدنا
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد گرامی ہے:
’’تم
لوگ جنت میں نہیں جا سکتے جب تک کہ مومن نہیں بنتے اور تم مومن نہیں بن سکتے جب تک
کہ ایک دوسرے سے محبت نہ کرنے لگو۔ آپس میں سلامتی بھیجنے کو پھیلائو۔‘‘
ایک
مرتبہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا:
’’خدا
کے بندوں میں کچھ ایسے ہیں جو نبی اور شہید تو نہیں ہیں لیکن قیامت کے روز خدا ان کو
ایسے رتبوں پر سرفراز فرمائے گا کہ انبیاء اور شہداء بھی ان کے مرتبوں پر رشک کریں
گے‘‘۔
صحابہؓ
نے پوچھا۔ وہ کون خوش نصیب ہوں گے یا رسول اللہﷺ!
آپﷺ
نے فرمایا:
’’یہ
وہ لوگ ہیں جو آپس میں ایک دوسرے سے محض خدا کے لئے محبت کرتے تھے، نہ یہ آپس میں
رشتہ دار تھے اور نہ ان کے درمیان کوئی لین دین تھا۔ خدا کی قسم! قیامت کے روز ان کے
چہرے نور سے جگمگا رہے ہوں گے، جب سارے لوگ خوف سے کانپ رہے ہوں گے تو انہیں کوئی خوف
نہ ہو گا اور جب سارے لوگ غم میں مبتلا ہوں گے اس وقت انہیں قطعاً کوئی غم نہ ہو گا۔‘‘
غصہ،
نفرت، تفرقہ، بغض و عناد اس مشن کا تشخص ہے جو بارگاہ ایزدی سے معتوب اور گم کردہ راہ
ہے۔ یہ مشن کبر و نخوت، ضد اور ذاتی طور پر غرور کا پرچار کرتا ہے۔ اس کردار میں وہ
تمام عوامل کارفرما ہیں جن سے بندہ اللہ سے دور ہو جاتا ہے اس کے اوپر تاریکی گھٹا
بن کر چھا جاتی ہے، ادبار اور آلام و مصائب اس طرح مسلط ہو جاتے ہیں کہ یہ خود اپنی
نظروں میں ذلیل و خوار ہو جاتا ہے۔ دل میں ایک ایسا ناسور پیدا ہو جاتا ہے کہ اس کے
تعفن سے روح کے اندر لطیف انوار اپنا رشتہ منقطع کر لیتے ہیں اور جب قطع و برید کی
یہ عادت مزمن ہو جاتی ہے تو انوار کا ذخیرہ پس پردہ چلا جاتا ہے اور اللہ کے ارشاد
کے مطابق دلوں پر، کانوں پر مہر لگا دی جاتی ہے اور آنکھوں پر دبیز اور گہرے پردے
ڈال دیئے جاتے ہیں۔ یہ محرومی اس کو نہ صرف یہ کہ دنیا میں امن و سکون سے دور کر دیتی
ہے بلکہ ایسا بندہ ازلی سعادت اور عرفان حق سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔