Topics

اگست1997؁ء۔چھٹی صدی عیسوی

چھٹی صدی عیسوی میں دو سُپر طاقتوں کا تذکرہ عام تھا۔ فارس کا مذہب مجوسیت تھا جو عراق سے لے کر ہندوستان کی سرحدوں تک پھیلا ہوا تھا۔

                روم کا مذہب عیسائیت تھا جو یورپ، ایشیا اور افریقہ تک پھیلا ہوا تھا۔ ان دو سُپر پاورز کے علاوہ یہود اور ہندو بھی اہمیت کے حامل تھے۔ ہر ایک کو اپنی اپنی بڑائی کا زعم تھا۔ اور ہر ایک صداقت و وحدانیت کا پیامبر بنا ہوا تھا۔

                بادشاہ، امراء اور فراعین اس درجے سے گم کردہ راہ ہو گئے تھے کہ رعایا سے خود کو خدا کہلواتے تھے۔ پست عقل اتنے تھے کہ انہیں یہ بھی نہیں سوجھتا تھا کہ عام آدمی کی طرح ایک مجبور اور بے بس انسان خدا کس طرح ہو سکتا ہے۔ امرائ، بادشاہ اور فراعین بھی عام لوگوں کی طرح کھاتے پیتے اور بول و براز کرتے تھے۔ عوام کی طرح نیند بھی ان کی مجبوری تھی۔ یہی وہ لوگ تھے جو پستی کے آخری نقطے پر پہنچ چکے تھے۔

                حکومت میں بدنظمی، دشمن کا خوف، عدم تحفظ کا احساس، ملک کے اندر باہر بدامنی، انتہائی اخلاقی گراوٹ، مادیت پرستی، جھوٹ، نفرت، تفرقہ بازی اور اقربا پروری عام ہو گئی تھی۔

                عیسائی مذہب کا یہ حال تھا کہ……

                سینکڑوں مذہبی فرقے بن گئے۔ قبر پرستی عام تھی۔ پیروں، فقیروں کو سجدے کئے جاتے تھے۔ حلال و حرام کی تمیز تو تھی۔ زبانی کلامی تذکرہ بھی ہوتا تھا مگر کہیں حلال روزی کا تصور باتی نہیں تھا۔ سود کی لعنت عام تھی۔ وہ جانتے تھے کہ مذہبی نقطہ نظر سے سودی لین دین کرنے والوں کو اللہ نے اپنا دشمن قرار دیا ہے۔ لیکن وہ اللہ کی اس بات کا اعتبار نہیں کرتے تھے کہ اللہ نے انہیں دشمن قرار دیا ہے۔ ان کی طرز فکر گہنا گئی تھی۔ اللہ انہیں دشمن قرار دے رہا تھا اور وہ لوگ عبادات میں مصروف رہتے تھے۔ دین داری کا عروج یافتہ تصور یہ تھا کہ دنیا بیزار ہو کر آدمی جنگلوں میں نکل جائے، جبکہ مذہبی دانشور خود کو معاہدے کے نگراں کہہ کر عوام کی دولت پر عیش کرتے تھے۔ ہر مذہب کے دانشوروں کا لباس اور رہن سہن عوام سے مختلف تھا۔

                کہا جاتا ہے……ہندوستان میں دیوتائوں کی تعداد ۳۳ کروڑ تک پہنچ گئی تھی۔ مندروں کے پجاریوں میں ذات پات کی تفریق عام تھی۔ قوانین ایسے بنائے تھے کہ عوام کو انصاف نہیں ملتا تھا۔ ایک خاندان کی نسل در نسل کی حکمرانی تھی۔

                عرب کا یہ حال تھا کہ فرشتوں کو خدا کی بہن بیٹیاں کہتے تھے۔ بت پرستی اتنی عروج پر تھی کہ خوبصورت پتھر پڑا مل جاتا تھا تو اس کو پوجنا شروع کر دیتے تھے۔ پانی سے مٹی گوندھ کر خود بت بناتے تھے اور اس بت پر بکری کا دودھ چھڑک کر اس کا طواف کرتے تھے۔

                جب زمین پر اس حد تک تاریکی پھیل گئی اور دنیا توحید کے تصور سے خالی ہونے لگی تو کائنات تخلیق کرنے والی ہستی نے اپنے محبوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ہدایت و رہنمائی کے لئے منتخب فرمایا۔ اور عظیم پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم نے توحید کی دعوت کو عام کیا۔ اس دعوت میں جو جو تکالیف توحید کے داعی کو پیش آئیں ان سے تاریخ کے صفحات سیاہ ہیں۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بڑی سے بڑی تکلیف اٹھا کر قربانی دے کر قوم کو امامت کے رتبے پر سرفراز کیا۔ قوم کے اندر سے بت پرستی ختم کی۔ خاندانی رقابتوں کو نظر انداز کر کے اپنے قبیلے کے خون بہا معاف کئے اور ایک وقت آیا کہ اسلام کی تعلیمات ساری دنیا میں پھیل گئیں۔ مسلمانوں کا عروج ہوا اور دوسری تمام اقوام پست ہو گئیں۔ زمانہ گزرتا رہا……

                پھر یوں ہوا کہ مسلمان مادی آسائش میں گرفتار ہو گیا۔ اور بالآخر آج وہی مسلمان جو فی الواقع مواحد تھا توحید کا لفظی سہارا لینے پر مجبور ہے۔

                چھٹی صدی میں جو کچھ ہو رہا تھا وہ آج بھی ہو رہا ہے۔ نفرت و حقارت، تعصب اور تفرقہ بازی کا جو بازار گرم تھا جس کو رسول اللہﷺ نے ختم کر دیا تھا آج پھر جوش عروج پر ہے۔ آج بھی سود کا لین دین عام ہے۔ اللہ سودی معیشت میں رہنے والے لوگوں کو اپنا دشمن قرار دیتا ہے اور مسلمان نماز پڑھتا ہے حج کرتا ہے اپنے مال میں سے زکوٰۃ ادا کرتا ہے۔ کوئی نہیں پوچھتا کہ اللہ کے دشمن کی نماز……نماز کیسے ہو سکتی ہے اور حج کیسے قبول ہو سکتا ہے۔

                مذہبی دانشور بڑی بڑی درسگاہیں، عالی شان مساجد تعمیر کرتے ہیں لیکن کوئی نہیں جاننا چاہتا کہ اللہ کے دشمن کی کمائی سے درسگاہوں اور مساجد سے نور کیسے طلوع ہو گا۔

                امت مسلمہ کا درد رکھنے والے لوگ حیران و پریشان ہیں کہ مذہبی دانشور مسلمانوں کو اللہ کی دشمنی سے نجات پانے کا راستہ کیوں نہیں دکھلاتے۔ قرآن کے واضح احکامات کے باوجود اسلام میں تفرقے کی بنیاد کو مسمار کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے۔ مادیت پرستی کے زہر کا تریاق تلاش کیوں نہیں کرتے۔

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔