Topics

اگست1996؁ء۔اللہ کی رحمت

اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ہمیشہ پُرامید رہئے اور یہ یقین رکھئے کہ گناہ خواہ کتنے ہی زیادہ ہوں، اللہ تعالیٰ کی رحمت اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ سمندر کے جھاگ سے زیادہ گناہ کرنے والا بھی جب اپنے گناہوں پر شرمسار ہو کر خدا کے حضور گڑگڑاتا ہے تو خدا اس کی سنتا ہے اور اس کو اپنے دامن رحمت میں پناہ دیتا ہے۔

                زندگی کے کسی حصے میں گناہوں پر شرمساری اور ندامت کا احساس پیدا ہو اسے خدا کی توفیق سمجھئے اور توبہ کے دروازے کو کھلا سمجھئے۔

                اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

                ’’اے میرے وہ بندو! جو اپنی جانوں پر زیادتی کر بیٹھے ہو، خدا کی رحمت سے ہرگز مایوس نہ ہونا۔ یقیناً خدا تمہارے سارے کے سارے گناہ معاف فرما دے گا۔ وہ بہت ہی معاف فرمانے والا اور بڑا ہی مہربان ہے اور تم اپنے رب کی طرف رجوع ہوجائو اور اس کی فرمانبرداری بجا لائو اس سے پہلے کہ تم پر کوئی عذاب آ پڑے اور پھر تم کہیں سے مدد نہ پا سکو۔‘‘ (سورہ الزمر: ۵۳۔۵۴)

                توبہ کے بعد اس پر قائم رہنے کا پختہ عزم کیجئے اور شب و روز اللہ سے کئے ہوئے پیمان کی طرف دھیان رکھئے لیکن اگر باوجود کوشش کے آپ پھسل جائیں اور پھر کوئی خطا کر بیٹھیں تب بھی ہرگز مایوس نہ ہوں بلکہ دوبارہ اللہ تعالیٰ کے دامن رحمت میں پناہ حاصل کریں۔ یہاں تک کہ آپ اس درجہ پر فائز ہو جائیں جہاں آدم زاد انسان بن جاتا ہے۔

                یاد رکھئے! اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونا……اللہ تعالیٰ پر ایمان نہ رکھنے کے مترادف ہے۔

                ارشاد ربانی ہے:

                ’’لا تقنطو امن رحمتہ اللّٰہ‘‘

                خدا کو سب سے زیادہ خوشی جس چیز سے ہوتی ہے وہ بندے کی توبہ ہے۔توبہ کے معنی ہیں پلٹنا، رجوع ہونا، بندہ جب فکر و جذبات کی گمراہی میں مبتلا ہو کر گناہوں کی دلدل میں پھنستا ہے تو وہ خدا سے بچھڑ جاتا ہے اور بہت دور جا پڑتا ہے۔ گویا خدا سے وہ گم ہو گیا اور جب وہ پھر پلٹتا ہے اور شرمسار ہو کر خدا کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو یوں سمجھئے کہ گویا خدا کو اپنا گمشدہ بندہ مل گیا۔

                سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے:

                ’’خدا رات کو اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تا کہ جس شخص نے دن میں کوئی گناہ کیا ہے وہ رات میں خدا کی طرف پلٹ آئے اور دن میں وہ اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تا کہ رات میں اگر کسی نے کوئی گناہ کیا ہے تو وہ دن میں اپنے رب کی طرف پلٹے اور گناہوں کی معافی مانگے۔ یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہو۔‘‘

                ہاتھ پھیلانے سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کو اپنی طرف بلاتا ہے اور اپنی رحمت سے ان کے گناہوں کو ڈھانپنا چاہتا ہے۔

                آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ

                ’’سارے کے سارے انسان خطا کار ہیں اور بہترین خطا کار وہ ہیں جو توبہ کرنے والے ہیں۔‘‘ 

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔