Topics

اگست 2002؁-روحانیت اور استغناء

’’اور جب تم عزم کر لو تو اللہ پر توکل کرو۔ بے شک اللہ توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ‘‘۔ 

              (سورۂ آل عمران۔ آیت 159)

              ’’(بے شک) حکم تو بس اللہ ہی کا ہے۔ میں اُسی پر توکل کرتا ہوں اور توکل کرنے والوں کو اُسی (اللہ) پر توکل کرنا چاہئے‘‘۔  (سورۂ یوسف۔ آیت 67)

              ’’اور جو کوئی اللہ پر توکل کرتا ہے تو وہ (اللہ) اس کے لئے کافی ہے۔ بے شک اللہ اپنا امر پورا کر کے رہتا ہے۔ اللہ نے ہر شئے کا ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے‘‘۔  (سورہ طلاق۔ آیت 3)

              روحانیت ایسے اسباق کی دستاویز ہے جن اسباق میں یہ بات وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ سکون کے لئے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر استغنا ہو، استغنا کے لئے ضروری ہے کہ قادر مطلق ہستی پر توکل ہو، توکل کو مستحکم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر ایمان ہو اور ایمان کے لئے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر غیب بین نظر متحرک ہو بصورت دیگر بندے کو سکون میسر نہیں آ سکتا۔

              جس بندے کے اندر توکل اور بھروسہ پیدا نہیں ہوتا اس کے اندر استغنا بھی نہیں ہوتا۔ استغنا سے مراد یہ ہے کہ ضروریاتِ زندگی گزارنے میں بندے کا ذاتی ارادہ یا اختیار شامل نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ اگر مرغی کھلاتے ہیں تو اس میں خوش رہتا ہے، اللہ تعالیٰ اگر چٹنی روٹی دیتے ہیں تو اس میں بھی خوش رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اگر کھدّر کے کپڑے پہناتا ہے تو بندہ اس میں بھی خوش رہتا ہے۔

              توکل اور بھروسہ میں دراصل ایک خاص تعلق ہے جو بندے اور اللہ کے درمیان براہ راست قائم ہے اور جس بندے کا اللہ کے ساتھ یہ رابطہ قائم ہو جاتا ہے اس بندے کے اندر سے دنیا کا تمام لالچ نکل جاتا ہے۔ ایسا بندہ دوسرے تمام بندوں کی امداد اور تعاون سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔

              اللہ پر توکل اور بھروسے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ آدمی کوشش اور جدوجہد ہی ترک کر دے۔ اللہ پر توکل کی بے مثال تشریح سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک ارشاد سے پوری طرح واضح ہو جاتی ہے۔ ایک مرتبہ ایک صاحب اونٹ پر سوار مسجد نبوی میں آئے۔ وہ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپﷺ نے فرمایا: ’’تم نے اپنا اونٹ باندھ دیا ہے؟‘‘ وہ صاحب بولے: ’’نہیں میں نے اللہ پر توکل کیا‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا:’’جائو پہلے اونٹ کو باندھو پھر توکل کرو‘‘۔

              توکل کا مطلب یہ ہے کہ بندہ اپنی تمام تر کوشش کر کے اس کا نتیجہ اللہ پر چھوڑ دے۔ زندگی کے تمام اجزائے ترکیبی کسی ایک طاقت کے پابند ہیں۔ وہ طاقت جس طرح چاہے چلاتی ہے اور جب چاہے ساکت کر دیتی ہے۔ علمائے باطن فرماتے ہیں کہ لوگ نادان ہیں، کہتے ہیں کہ ہماری گرفت حالات کے اوپر ہے اور انسان اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق حالات میں رد و بدل کر سکتا ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ انسان ایک کھلونا ہے۔ حالات جس قسم کی چابی اس کھلونے میں بھر دیتے ہیں اسی طرح یہ کودتا ہے، ناچتا ہے، آوازیں نکالتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر فی الواقع حالات پر انسان کو دسترس حاصل ہوتی تو کوئی آدمی غریب نہ ہوتا۔

                پیغمبرانہ تعلیمات اس بات کا درس دیتی ہیں کہ دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کے سارے کام پورے کیجئے، اچھا کھانا کھایئے، بہترین لباس پہنئے، چٹنی کے ساتھ مرغ بھی کھایئے لیکن ہر کام اور ہر عمل کا رُخ اس ذاتِ مطلق کی طرف موڑ دیجئے جس نے یہ دنیا بنائی۔ کھانا اس لئے کھایئے کہ اللہ چاہتا ہے بندہ کھانا کھائے۔ بندے کھانا نہیں کھائیں گے تو دنیا ویران ہو جائے گی۔ پانی اس لئے پئیں کہ اللہ چاہتا ہے کہ بندہ پانی پیئے تا کہ اللہ کا لگایا ہوا باغ (دنیا) سرسبز و شاداب رہے۔ آپ بیوی بچوں سے محبت اس لئے کریں کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ بیوی بچوں سے محبت کی جائے لیکن ہر کام، کوشش اور جدوجہد کی کامیابی یا ناکامی کا نتیجہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیں۔

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔