Topics
تمام انبیاء کرامؑ کا ذہن یہی تھا کہ وہ ہر
معاملے میں اللہ پر بھروسہ کرتے تھے اور ہر آزمائش میں اللہ کے شکر کے ساتھ ثابت قدم
رہتے تھے۔ شکایت کا کوئی کلمہ ان کے لبوں سے ادا نہیں ہوتا تھا۔ قرآن پاک نے حضرت
ایوب علیہ السلام کو اللہ پر توکل اور مشکلات میں ثابت قدمی کا سمبل Symbolبنا کر پیش کیا ہے۔ اس کے برخلاف حضرت سلیمان
علیہ السلام کو مالی فراوانی اور خوشحالی میں شکر، انکساری، فروتنی اور سخاوت کا مظہر
بنا کر پیش کیا ہے۔
ارشاد
خداوندی ہے:
’’اور
ہم ضرور تمہیں خوف و خطر، بھوک، جان و مال کے نقصان اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا
کر کے تمہاری آزمائش کریں گے ان لوگوں کو خوشخبری دے دیجئے جو مصیبت پڑنے پرکہتے ہیں۔
ہم خدا ہی کے ہیں اور خدا ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے، ان پر ان کے رب کی طرف سے
بڑی عنایات ہوں گی اور اس کی رحمت ہو گی اور ایسے ہی لوگ راہ ہدایت پر ہیں۔‘‘
ایک
جگہ ارشاد ہے:
’’جو
مصائب بھی روئے زمین پر آتے ہیں اور جو آفتیں بھی تم پر آتی ہیں وہ سب اس سے پہلے
کہ ہم انہیں وجود میں لائیں ایک کتاب میں موجود ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بات
خدا کے لئے آسان ہے تا کہ تم اپنی ناکامی پر غم نہ کرتے رہو۔‘‘
مومن
کی طرز فکریہ ہوتی ہے کہ وہ ہر حالت چاہے وہ خوشی کی ہو، غم کی ہو یا مالی فراوانی
کی ہو، ایک نظر سے دیکھتا ہے۔ ہر مصیبت میں ثابت قدم رہتا ہے۔ کیسے ہی حالات کیوں نہ
ہوں وہ کبھی ناامیدی کی دلدل میں نہیں پھنستا۔ اللہ کا شکر ادا کرنا اس کا شعار ہوتا
ہے۔ وہ یہ جانتا ہے کہ جس طرح خوشی کا زمانہ آتا ہے اسی طرح مصائب کا دور آنا بھی
ایک ردعمل ہے۔ وہ آزمائش کے زمانے میں جدوجہد اور عمل کے راستے کو ترک نہیں کرتا کیونکہ
اس کی پوری زندگی ایک پیہم جدوجہد ہوتی ہے۔
انسان
کو اس دنیا کی زندگی میں طرح طرح کے حالات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ کبھی اس پر رنج و
غم اور تکالیف کا دور آتا ہے اور کبھی خوشی اور کامیابی اس کے قدم چومتی ہے۔ کبھی
جانی و مالی نقصانات اٹھانا پڑتے ہیں اور کبھی مالی منفعت حاصل ہوتی ہے۔ انسان کے جذبات
اور اس کی سوچ میں حالات کے ان تلاطم سے تبدیلیاں پیدا ہوتی رہتی ہیں جب اس پر مصائب
کا زمانہ آتا ہے تو وہ بشری تقاضے کے تحت رنج و غم اور تفکرات سے نیم مردہ ہو کر رہ
جاتا ہے اور ناامیدی اور احساس کمتری اس کے ذہن پر اپنا قبضہ جما لیتی ہے۔ جذبات کی
رو میں آ کر وہ قانون قدرت کو بھی برا بھلا کہہ بیٹھتا ہے حالانکہ وہ قانون قدرت سے
واقفیت ہی نہیں رکھتا۔
اس
کے برعکس جب اس پر خوشحالی کے دروازے کھلتے ہیں اور خوشیاں اس کے حصے میں آتی ہیں
تو وہ ان حالات کو اپنی قوت بازو پر محمول کرتا ہے اور دولت کے نشے میں چور ہو کر حد
سے تجاوز کر جاتا ہے۔
نبی
صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
ذوالنون
(حضرت یونس علیہ السلام) نے مچھلی کے پیٹ میں اپنے پروردگار سے جو دعا کی وہ یہ تھی۔
’’لا
الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین۔‘‘
’’تیرے
سوا کوئی معبود نہیں تو بے عیب و پاک ہے، میں ہی اپنے اوپر ظلم ڈھانے والا ہوں۔‘‘
پس
جو مسلمان بھی اپنی کسی تکلیف یا تنگی میں خدا سے یہ دعا مانگتا ہے خدا اسے ضرور قبولیت
بخشتا ہے۔
مومن
اور کافر کے کردار میں یہ فرق ہے کہ کافر رنج و غم کے ہجوم میں پریشان ہو کر، مایوسی
کا شکار ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات مایوسی اس حد تک اس کے اوپر مسلط ہو جاتی ہے کہ وہ پریشان
حالی اور درماندگی کی تاب نہ لا کر خود کشی کا مرتکب بن جاتا ہے۔
اس
کے برعکس مومن مصائب و آلام کو صبر و سکون کے ساتھ برداشت کرتا ہے اور بڑے سے بڑے
حادثہ پر بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا اور صبر و استقامت کا پیکر چٹان کی طرح
اسی جگہ قائم رہتا ہے اور جو کچھ پیش آ رہا ہے اس کو اللہ کی مشیئت سمجھ کر اس میں
خیر کا پہلو نکال لیتا ہے۔
حضور
صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
’’جتنی
سخت آزمائش اور مصیبت ہوتی ہے اتنا ہی بڑا اس کا صلہ ہوتا ہے اور خدا جب کسی گروہ
سے محبت کرتا ہے تو اس کو آزمائش میں مبتلا کر دیتا ہے۔ پس جو لوگ خدا کی رضا پر راضی
ہیں خدا بھی ان سے راضی ہوتا ہے اور جو آزمائش میں خدا سے ناراض ہوں، خدا بھی ان سے
ناراض ہو جاتا ہے۔‘‘
مومن
کی مرضی اور رضا اسی امر میں ہوتی ہے جو خدا کی طرف سے ہو اور وہ تمام امور کو اللہ
کی جانب سے سمجھتا ہے۔
’’مومن
کا معاملہ بھی خوب ہے وہ جس حال میں بھی ہوتا ہے خیر سمیٹتا ہے۔ اگر وہ دکھ بیماری
اور تنگدستی سے دوچار ہوتا ہے تو سکون کے ساتھ برداشت کرتا ہے اور یہ آزمائش اس کے
حق میں خیر ثابت ہوتی ہے اور اگر اس کو خوشی اور خوشحالی نصیب ہوتی ہے تو شکر کرتا
ہے اور یہ خوشحالی اس کے لئے خیر کا سبب بنتی ہے۔‘‘
کٹھن
حالات اور آزمائشوں کے ذریعے قدرت آدمی کی سوچ کو نکھارنے اور اس کو کندن بنانے کا
کام بھی لیتی ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔