Topics
مادیت اور روحانیت پر فاعل مختار ایک
ہی ہستی ہے اور وہ ہے الہ، مادیت میں ہم اللہ کے جاری قانون کا شب روز مشاہدہ کرتے
ہیں جبکہ روحانیت میں حواس سے بلند تعقل و تفکر کارفرما ہوتا ہے۔
روحانیت
میں وجدان عقل و شعور کو رہنما بناتے ہیں تو انسان کے سامنے اس کائنات کی حقیقت
روشن ہو جاتی ہے۔
انسانی
حواس میں سب سے پہلے بصیرت کام کرتی ہے اور اس طرح ہم سب سے پہلے اس کائنات کا
مشاہدہ کرتے ہیں۔ مشاہدہ انسان کو دعوت فکر دیتا ہے اور اس طرح انسانی سوچ کا
دھارا مڑتا ہے۔
یوں
تو معمار کائنات نے جو کچھ بھی بنایا ہے اپنی مثال آپ ہے۔ خاکی زمین سے لے کر
نیلے آسمان تک جو کچھ بھی ہے اگر اس پر غور و فکر کیا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوتی
ہے کہ اللہ واحدہ کی احدیت میں ایک ہی قانون نافذ ہے اور وہ عبدیت ہے۔
اس
زمین پر کہیں فلک بوس پہاڑ ہیں جن کی چوٹیوں پر برف جمی رہتی ہے اور کہیں سبزہ ہے
جن کے درخت پھلوں اور پھولوں سے لدے ہوتے ہیں اور کہیں نہ پہاڑ ہیں اور نہ ہی سبزہ
بلکہ ریت ہی ریت ہے۔
دنیا
میں کوئی ایسا مصور، کوئی ایسا منظر نگار نہیں گزرا جس نے اس کرہ ارض پر واقع
مناظر سے پہلو تہی کر کے کوئی نیا تصور پیش کیا ہو۔
یہ
اس بات کا ثبوت ہے کہ اس دنیائے رنگ و بو کو اللہ تعالیٰ نے ایسے مناظر سے آراستہ
کیا کہ انسان کسی سے بددل نہیں ہوتا۔ ان مناظر میں عبدیت کی وہ مہک شامل ہے جو
انسان کی فطرت میں ازل سے قائم ہے۔
اللہ
زمین سے آسمان تک ہے یعنی اس کا وجود تمام کائنات پر محیط ہے اس کا مطلب یہ ہوا
کہ انسان سے لے کر تمام جاندار اور نباتات و جمادات اس کی تسبیح میں مشغول ہیں۔
قرآن پاک کی سورہ انبیائ۔ سبا اور سورہ ص میں اس سلسلہ میں صراحت کے ساتھ بیان
کیا گیا ہے۔
ترجمہ:
’’اور ہم نے پہاڑوں اور پرندوں کو تابع کر دیا ہے کہ وہ دائود کے ساتھ تسبیح کرتے
ہیں اور ہم ہی میں ایسا کرنے کی قدرت ہے اور بیشک ہم نے دائود کو اپنی جانب سے
فضیلت بخشی ہے (وہ یہ کہ ہم نے حکم دیا) اے پہاڑوں اور پرندو! تم دائود کے ساتھ مل
کر تسبیح اور پاکی بیان کرو۔‘‘
ترجمہ:
’’(سبا) بیشک ہم نے دائود کے لئے پہاڑوں کو مسخر کر دیا ہے کہ اس کے ساتھ صبح و
شام تسبیح کرتے ہیں اور پرندوں کے پرے کے پرے جمع ہوتے اور سب مل کر حمد و ثناء
کرتے ہیں۔‘‘
ان
آیات پر غور کرنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ چرند و پرند اور پہاڑوں کی سبیح زبان
حال سے ہے۔ گویا کائنات کی ہر شئے کا وجود اور اس کی ترکیب خدا کی خالقیت کی شاہد
ہے اور یہی اس کی تسبیح و تمجید ہے۔
ایک
اور جگہ قرآن پاک میں سورہ نبی اسرائیل میں ارشاد ربانی ہے:
’’آسمان
اور زمین خدا کی تسبیح کرتے ہیں اور کائنات کی ہر شئے خدا کی تسبیح کرتی ہے لیکن
تم ان کی تسبیح کا فہم و ادراک نہیں رکھتے۔‘‘
ان
آیات میں دو باتیں قابل غور ہیں۔ اول یہ کہ کائنات کی ہر شئے تسبیح کرتی ہے، دوم
یہ کہ جن و انس کی تسبیح سمجھنے کا فہم و ادراک نہیں رکھتے۔
اللہ
تعالیٰ نے آسمان اور زمین پر واقع ہر شئے جن میں حیوانات، نباتات و جمادات بھی
شامل ہیں تسبیح کی نسبت فرمائی ہے اس پر دوسرے جملے کا اطلاق ہوتا ہے جس میں اللہ
تعالیٰ فرماتا ہے کہ جن و انس اس تسبیح کے فہم و ادراک سے قاصر ہیں اور یہ انسان
ہی ہے جو اس قسم کی مشرکانہ گمراہی میں مبتلا ہو رہا ہے ورنہ ساتوں آسمان و زمین
اور کائنات کی ہر شئے خدا کی پاکی بیان کرتی ہے اور شرک سے بیزاری کا اظہار کرتی
ہے مگر انسان ان کی اس تسبیح کے فہم و ادراک سے قاصر ہے۔
بے
شک اللہ بڑا بُردبار اور بخشنے والا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔