Topics
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے پس منہ پھیر لے اس
شخص سے کہ پھر گیا وہ یاد ہماری سے اور نہ ارادہ کیا مگر زندگانی دنیا کا۔
ترجمہ:
اور اس کو کثرت سے یاد کرو تا کہ تم فلاح پائو۔
اور
جو کوئی اللہ کی یاد سے غافل ہوتا ہے ہم اس پر ایک شیطان متعین کرتے ہیں اور پھر وہ
اس کا ساتھی رہتا ہے۔ شیطان تو آدمیوں کو رستے سے روکتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ
ہم راہ راست پر ہیں۔
(سورہ
الاخرات)
تم
ان لوگوں کی مانند ہو جنہوں نے اللہ سے بے پروائی کی۔ سو اللہ تعالیٰ نے خود ان کو
اپنی جان سے بے پروا بنا دیا۔
بامراد
ہوا جو شخص (قرآن سن کر) خبائث عقائد و اخلاق سے پاک ہو گیا اور اپنے رب کا نام لیتا
اور صلوٰۃ قائم کرتا رہا۔
(الاعلیٰ)
پس
جس نے منہ پھیرا یا دیری سے پس اس کے واسطے معشیت ہے۔ تنگ اور اٹھاویں گے ہم اس کو
دن قیامت کے اندھا۔ (طحہ)
ترجمہ:
(اور آپ ہر شخص سے یہ بھی کہہ دیجئے) کہ اے شخص اپنے رب کی یاد کیا کر اپنے دل میںعاجزی
کے ساتھ اور زور کی آواز کی نسبت کم آواز کے ساتھ صبح اور شام۔ (الاعراف)
اے
ایمان والو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کر دیں اور
جو کوئی ایسا کرے گا، سو وہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔
اور
جس دن جمع کر کے بلائے گا اور ان کو اور جن کو وہ پوجتے ہیں اللہ کے سوا پھر ان سے
کہے گا کیا تم نے بہکایا میرے ان بندوں کو یا وہ آپ بہکے راہ سے بولیں گے تو پاک ہے۔
ہم سے بن نہ آتا تھا۔ پکڑ لیں کسی کو تیرے بغیر رفیق لیکن تو ان کو فائدہ پہنچاتا
رہا۔ اور ان کے باپ دادوں کو یہاں تک کہ بھلا بیٹھے تیری یاد اور یہ تھے لوگ تباہ ہونے
والے۔
سو
تم مجھے یاد کرتے رہو میں بھی تمہیں یاد کرتا رہوں گا۔ (البقرہ)
خوب
سن لو کہ اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان ہو جاتا ہے۔ (الرعد)
اور
اس سے بڑھ کر اور ظالم کون جو اللہ کی مسجدوں کو اس سے روک دے ان میں اس کا نام لیا
جائے اور ان کی بربادی کی کوشش کرے۔
اے
ایمان والو! جب تم کو کسی جماعت سے (جہاد میں) مقابلہ کا اتفاق ہوا کرے (ان آداب کا
لحاظ رکھو ایک یہ کہ) ثابت قدم رہو۔ اور اللہ کا خوب کثرت سے ذکر کرو۔ امید ہے کہ تم
کامیاب ہو گے۔ (الافعال)
(وہاں)
ایسے لوگ صبح شام تسبیح کرتے ہیں جن کو نہ تجارت نہ بیچنا ذکر الٰہی سے روکتا ہے نہ
نماز قائم کرنے سے نہ زکوٰۃ دینے سے وہ اس دن کے بتا دیتے ہیں کہ جس میں دل اور آنکھیں
الٹ دی جائیں گی۔
ان
پر شیطان نے پورا تسلط کر لیا ہے سو اس نے ان کو خدا کی یاد بھلا دی۔ یہ لوگ شیطان
کا گروہ ہے۔ خوب سن لو کہ شیطان کا گروہ ضرور برباد ہونے والا ہے۔
اور
اپنے آپ کو مقید رکھا کیجئے ان لوگوں کے ساتھ جو اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں صبح
و شام محض اس کی رضا جوئی کیلئے۔
اور
یہ وہ لوگ ہیں کہ جب کوئی بے جا حرکت کر بیٹھے یا اپنے ہی حق میں کوئی ظلم کر ڈالتے
ہیں تو اللہ کو یاد کر لیتے ہیں اور اپنے گناہوں سے معافی طلب کرنے لگتے ہیں۔
پھر
جب نماز (جمعہ) پوری ہو چکے تو (اس وقت تم کو اجازت ہے کہ) تم زمین پر چلو اور خدا
کی روزی تلاش کرو (اور اس میں بھی) اللہ کو بکثرت یاد کرتے رہو تا کہ تم کو فلاح ہو۔
اور
جو شخص اپنے رب کی یاد سے روگردانی کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کو سخت عذاب میں داخل کرے
گا۔
اور
اللہ کی یاد بہت بڑی چیز ہے۔
اور
جب نماز ادا کر چکو تو اللہ کی یاد میں لگ جانا۔ کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے۔ (السناد)
سو
بڑی خرابی ان لوگوں کیلئے ہے جن کے دل اللہ کے ذکر کی طرف سے سخت ہیں۔ یہ لوگ کھلی
ہوئی گمراہی میں مبتلا ہیں۔
تم
اور تمہارا بھائی میری نشانیوں کے ساتھ جائو اور میری یاد میں سستی نہ کر۔
شیطان
تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جُوئے کے ذریعے سے تم میں دشمنی اور بغض ڈال دے اور تمہیں
اللہ کی یاد سے اور نماز سے روکے سو اب بھی باز آ جائو۔
اور
اس شخص کا کہنا نہ مانیئے جس کے قلب کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر رکھا ہے اور وہ اپنی
خواہش کی پیروی کرتا ہے اور اس کا معاملہ حد سے گزرا ہوا ہے۔
بے
شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات دن کے ادل بدل میں اہل عقل کیلئے بڑی نشانیاں
ہیں۔ یہ ایسے ہیں کہ اللہ کو کھڑے بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر برابر یاد کرتے رہتے ہیں
اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے رہتے ہیں۔
احادیث
فرمایا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے:
حضرت
جابرؓ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ
افضل ذکر لا الہ الا اللہ ہے اور افضل دعا الحمد للہ ہے۔
بے
شک آدمی کے بدن میں گوشت کا لوتھڑا ہے جب وہ درست ہو جاتا ہے تو تمام بدن درست ہو
جاتا ہے اور جب وہ بگڑ جاتا ہے تو تمام بدن تباہ ہو جاتا ہے سن لو وہ دل ہے۔
رسول
اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
ایمان
یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کرو کہ گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو۔ اگر تم اسے
نہیں دیکھتے تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔
حضرت
معاویہؓ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ایک حلقہ میں بیٹھے ہوئے صحابہ
کے پاس تشریف لائے اور فرمایا تم کاہے کو یہاں بیٹھے ہو۔ عرض کیا۔ ہم اللہ کے ذکر کیلئے
اور اس امر کا شکریہ ادا کرنے کیلئے بیٹھے ہیں کہ اللہ نے ہمیں اسلام اور اپنے ذکر
کی ہدایت اور توفیق بخشی ہے۔ فرمایا کہ بخدا تمہارے یہاں بیٹھنے کی غرض یہی ہے۔ عرض
کیا بخدا اسی جذبے نے ہمیں یہاں بٹھا رکھا ہے۔ فرمایا میں نے کسی بدگمانی کی وجہ سے
تم سے بحلف کہنے کو نہیں کہا بلکہ (یہ تو تقریر اور تاکید کیلئے ہے) بات یہ ہے کہ جبریل
امین میرے پاس آئے اور مجھے خبر دی کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اس عمل سے خوش ہو رہے ہیں۔
حضرت
ابوسعیدؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا کہ قیامت کے دن
اللہ کے نزدیک کون افضل ہے اور کس کا درجہ دوسروں کی نسبت بلند ہے۔ فرمایا کثرت سے
اللہ کو یاد کرنے والے مردوں اور عورتوں کا درجہ ارفع ہے۔
عبداللہ
بن بسر روایت کرتے ہیں کہ ایک اعرابی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر
ہوا۔ عرض کیا کونسا آدمی بہتر ہے۔ فرمایا جس کی عمر طویل ہو اور اعمال ہوں۔ کہنے لگا۔
یا رسول اللہ کونسا عمل سب سے افضل ہے۔ فرمایا تو دنیا سے اس حال میں رخصت ہو کہ تیری
زبان اللہ کے ذکر سے تر ہو۔
حضرت
ابوالدرداء نبی کریمﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ایک ایسی جماعت
کو اٹھا کر سامنے لائے گا جن کے چہرے منور ہوں گے اور وہ موتیوں سے مزین منبروں پر
بیٹھے ہوں گے۔ لوگ ان پر رشک کریں گے۔ وہ لوگ نہ انبیائ، نہ شہدائ۔ ایک اعرابی نے عرض
کیا۔ حضورﷺ اس کی وضاحت فرما دیں تا کہ ہم انہیں پہچان لیں۔ فرمایا کہ وہ مختلف قبائل
سے اللہ کیلئے باہمی محبت کے جذبے کے تحت جمع ہو کر ذکر الٰہی کرنے والے لوگ ہیں۔
حضرت
عبداللہ بن بسر فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور نبی کریمﷺ سے عرض کی کہ احکام شریعت
کی کماحقہ تکمیل میں، میں اپنے آپ کو عاجز پاتا ہوں مجھے کوئی ایسی سہل اور جامع عمل
فرمائیں جسے میں حرزِ جان بنا لو۔ فرمایا تیزی زبان ذکر الٰہی کرتی رہے۔
حضرت
ابو ہریرہؓ اور حضرت ابوسعیدؓ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
کہ جو جماعت اللہ کے ذکر کیلئے بیٹھتی ہے فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں۔ اللہ کی خصوصیت
رحمت ان پر سایہ کر لیتی ہے۔ ان کے دلوں میں سکون و اطمینان نازل ہوتا ہے اور اللہ
تعالیٰ فرشتوں میں فخر و مباہات …………………
نوٹ:
نامکمل۔ فوٹو کاپیز میں اس سے اگلا صفحہ نہیں ہے
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔