Topics

اکتوبر 2005؁۔روزے کے فوائد

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

              ترجمہ:’’اے ایمان والو! تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تا کہ تم تقویٰ اختیار کرو‘‘۔  (سورۂ بقرہ۔ 183)

              روزے کے روحانی فوائد میں ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ لوگوں میں اجتماعیت کا جذبہ کار فرما ہوتا ہے۔ کروڑوں مسلمان رمضان المبارک میں صبح کی اذان کے بعد اللہ کی رضا کی خاطر حلال چیزوں کی طرف بھی نظر اُٹھا کر نہیں دیکھتے۔ سارا دن بھوکے پیاسے رہتے ہیں، عبادت و ریاضت میں وقت گزارتے ہیں، جھوٹ بولنے سے احتراز کرتے ہیں، غصے پر کنٹرول کرتے ہیں، خیرات کرتے ہیں پھر مغرب کی اذان کے وقت اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو کھاتے پیتے ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ روزہ دار جب پورے آداب کے ساتھ روزہ رکھتا ہے تو بیس دن کے اندر اس کے حواس اتنے مجلی اور نورانی ہو جاتے ہیں کہ وہ راتوں کو شب بیدار رہ کر ’’شبِ قدر‘‘ کی فضیلت سے فیضیاب ہو سکتا ہے۔

 

نورِ نبوت

              حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا……

              ’’آدم کے بیٹے کا یہ حال ہے، کہتا ہے میرا مال! میرا مال! تیرا مال تو وہی ہے جو تُو نے صدقہ کیا اور آگے بھیج دیا، کھا لیا تو اس کو فنا کر چکا اور پہن لیا تو اس کو پرانا کر چکا‘‘۔

              ہمارے اوپر فرض ہے کہ ہم حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے اُسوۂ حسنہ کی روشنی میں اپنی کمائی کو مخلوقِ خدا کی بھلائی کے بہترین مصرف میں استعمال کریں تا کہ اس سے ہماری اپنی ذات کی نشوونما ہو اور معاشرے سے معاشی ناہمواری کے عفریت کا خاتمہ ہو جائے۔ رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے ارتکازِ دولت پر بار بار ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا اور اسے مستحقین کی ضروریات پر خرچ کرنے کی تلقین فرمائی۔ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اتباع کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ آپ ضرورت مندوں کی امداد پوشیدہ طریقے سے کریں تا کہ آپ کے اندر بڑائی یا نیکی کا غرور پیدا نہ ہو اور نہ ہی مستحقین کی عزتِ نفس مجروح ہو۔ کسی کو کچھ دے کر احسان نہ جتائیں اور نہ نمود و نمائش کا اظہار کریں کیونکہ یہ اللہ کے نزدیک ایک ناپسندیدہ عمل ہے۔

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔