Topics

اپریل1999؁ء۔مہمان

مہمان کے آنے پر سلام دعا کے بعد سب سے پہلے اس کی خیریت معلوم کریں۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے:

                ’’کیا آپ کو ابراہیم کے معزز مہمان کی حکایت بھی پہنچی ہے کہ جب وہ ان کے پاس آئے تو آتے ہی سلام کیا۔ ابراہیم نے جواب میں سلام کیا۔‘‘

                حضرت فوراً ان کے کھانے پینے کے انتظام میں لگ گئے اور جو موٹا تازہ بچھڑا ان کے پاس تھا اس کا گوشت بھون کر مہمانوں کی خدمت میں پیش کر دیا۔

                ’’تو جلدی سے گھر میں جا کر ایک موٹا تازہ بچھڑا لائے اور مہمانوں کے سامنے پیش کیا۔‘‘ (قرآن)

                اچھے لوگ مہمانوں کے کھانے پینے پر مسرت محسوس کرتے ہیں۔ مہمان کو زحمت نہیں، رحمت اور خیر و برکت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ گھر میں مہمان آنے سے عزت و توقیر میں اضافہ ہوتا ہے۔

                میزبان پر یہ فرض ہے کہ مہمان کی عزت و آبرو کا لحاظ رکھا جائے۔ آپ کے مہمان کی عزت پر کوئی حملہ کرے تو اس کو اپنی غیرت و حمیت کے خلاف چیلنج سمجھئے۔

                جب حضرت لوط علیہ السلام کے مہمانوں پر بستی کے لوگ بدنیتی کے ساتھ حملہ آور ہوئے تو وہ مدافعت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا:

                ’’یہ لوگ میرے مہمان ہیں۔ ان کے ساتھ بدسلوکی کر کے مجھے رسوا نہ کرو۔ ان کی رسوائی میری رسوائی ہے۔‘‘

                ’’لوطؑ نے کہا۔ بھائیو! یہ میرے مہمان ہیں۔ مجھے رسوا نہ کرو، خدا سے ڈرو اور میری بے عزتی سے باز رہو۔‘‘ (قرآن)

                نبی مکرمﷺ خود بنفس نفیس مہمانوں کی خاطر داری فرماتے تھے۔ جب آپﷺ مہمان کو اپنے دستر خوان پر کھانا کھلاتے تو بار بار فرماتے:

                ’’اور کھایئے، اور کھایئے۔‘‘

                جب مہمان خوب آسودہ ہو جاتا اور انکار کرتا اس وقت آپ اصرار نہیں فرماتے تھے۔

                مہمان کے سامنے اچھے سے اچھا کھانا پیش کیجئے۔

                دستر خوان پر خوردنوش کا سامان اور برتن وغیرہ مہمانوں کی تعداد سے کچھ زیادہ رکھئے۔ ہو سکتا ہے کہ کھانے کے دوران کوئی اور صاحب آ جائیں اور پھر ان کے لئے بھاگ دوڑ کرنا پڑے۔ اگر برتن اور سامان پہلے سے موجود ہو گا تو آنے والا بھی عزت اور مسرت کرے گا۔ مہمان کے لئے خود تکلیف اٹھا کر ایثار کرنا اخلاق حسنہ کی تعریف میں آتا ہے۔

                ایک مرتبہ نبی کریمﷺ کی خدمت میں ایک شخص آیا اور بولا۔’’حضور! میں بھوک سے بے تاب ہوں۔‘‘

                آپﷺ نے امہات المومنین میں سے کسی ایک کو اطلاع کرائی۔ جواب آیا کہ یہاں تو پانی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ پھر آپﷺ نے دوسرے گھر آدمی بھیجا۔ وہاں سے بھی یہی جواب آیا۔ یہاں تک کہ جب سب گھروں سے یہی جواب آیا تو آپﷺ اپنے صحابیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:

                ’’آج کی رات کون اسے قبول کرتا ہے؟‘‘

                ایک صحابی انصاری نے اس مہمان کی میزبانی کا شرف حاصل کرنے کی استدعا کی اور وہ انصاری مہمان کو اپنے گھر لے گئے۔ ان کی بیوی نے کہا۔ ’’ہمارے پاس تو صرف بچوں کے لائق کھانا ہے۔‘‘

                صحابی رسول نے کہا بچوں کو کسی طرح بہلا کر سلا دو اور جب مہمان کے سامنے کھانا رکھو تو کسی بہانے چراغ بجھا دینا اور کھانے پر مہمان کے ساتھ بیٹھ جانا تا کہ اس کو یہ محسوس ہو کہ ہم بھی اس کے ساتھ کھانے میں شریک ہیں۔ صبح جب یہ انصاری حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپﷺ نے دیکھتے ہی فرمایا:

                ’’تم دونوں نے رات اپنے مہمان کے ساتھ جو سلوک کیا ہے وہ خدا کو بہت پسند آیا ہے۔‘‘

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔