Topics
برائیوں
کو مٹانے کی جدوجہد اور بھلائیوں کی ترغیب ہی وہ عمل ہے جو ہمارے وجود کا ضامن ہے۔
اس میں کوتاہی کا نتیجہ تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ
کا ارشاد ہے:
’’تم
بہترین امت ہو جو سارے انسانوں کے لئے وجود میں لائی گئی ہے۔ تم بھلائی کا حکم دیتے
ہو اور برائی سے روکتے ہو اور خدا پر کامل ایمان رکھتے ہو۔‘‘ (آل عمران)
لیکن
اس کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی غور کرنا ہو گا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم جس غلط روش
سے لوگوں کو بچنے کی تلقین کر رہے ہیں اور اس کے بُرے نتائج سے انہیں خبردار کر رہے
ہیں، ہم خود دانستہ یا غیر دانستہ طور پر اسی راہ پر چل رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس
طرز عمل کی نشاندہی اس طرح کی ہے کہ
’’کیا
تم لوگوں کو نیکی کی تلقین کرتے ہو اور خود کو بھول جاتے ہو۔‘‘ (البقرہ)
اور
’’تم
وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو۔‘‘ (الصف)
اللہ
کے راستے کی طرف دعوت دینے میں ہماری بات میں اسی وقت تاثر پیدا ہو گا جب ہم خود اس
دعوت اور تعلیم کا نمونہ ہوں اور ہمارا رابطہ اللہ کے ساتھ ویسا ہی ہو جو ایک حقیقی
بندے کا اپنے رب سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس ربط کے حصول کا طریقہ حضور سرور کائناتﷺ
کو یہ بتایا ہے:
’’ترجمہ:’’اے
چادر میں لپٹنے والے، رات میں ’’قیام‘‘ کیجئے مگر کچھ رات، آدمی رات یا اس سے کچھ
کم یا کچھ زیادہ اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھیئے۔ ہم جلد آپ پر ایک بھاری فرمان
ڈالنے والے ہیں۔‘‘ (المزمل)
قیام
کا مطلب یہ ہے کہ بندہ اپنے رب کی قربت پر قائم ہو کر اس سے ایسا ربط پیدا کرے کہ اس
کی زندگی کا ہر عمل اللہ کی ذات سے وابستہ ہو جائے اور وہ اللہ تعالیٰ کو پہچان لے۔
جب
بندہ اپنے رب سے حقیقی تعلق کو قائم کر لیتا ہے تو وہ غم اور خوف سے نجات حاصل کر کے
سکون اور اطمینان کی تصویر بن جاتا ہے۔ اب جب وہ کوئی بات کہتا ہے اور کسی بات کی دعوت
دیتا ہے تو باضمیر لوگ اور سعید روحیں اس کی آواز پر لبیک کہتی ہیں۔
دعوت
اور تبلیغ دین حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا مشن ہے۔ اس لئے پورا خیال رکھئے کہ اس دعوت
کا طریق کار حکمت اور سلیقہ سے مزین اور ہر لحاظ سے موزوں، بروقت اور پُروقار ہو۔ مخاطب
کی فکری رسائی، ذہنی کیفیت کے مطابق بات کیجئے۔ لوگوں میں حسن ظن، خیر خواہی اور خلوص
کے جذبات ابھاریئے۔ ہٹ دھرمی، تعصب اور نفرت کو ختم کیجئے۔
تحریر
و تقریر میں عذاب اور خوف پر اتنا زور نہ دیجئے کہ لوگ اللہ کی رحمت سے مایوس ہو جائیں
بلکہ عذاب اور خوف کے ایک مختصر پہلو کے مقابلے میں اللہ کے لامحدود اور وسیع دامن
رحمت کو پیش کیجئے۔ جس میں پوری کائنات سجائی ہوئی ہے اور جس کی بنیاد پر تمام مخلوقات
کا وجود ہے۔
ہمارے
لئے ضروری ہے کہ جو کچھ ہم دنیا کے سامنے پیش کریں اس کا مخاطب سب سے پہلے خود اپنی
ذات کو بنائیں۔ جن حقیقتوں کو قبول کرنے میں ہم دنیا کی بھلائی دیکھیں پہلے خود کو
اس کا حریص بنائیں۔ انفرادی عمل، خانگی تعلقات، اخلاقی معاملات اور اللہ سے ربط کے
معاملے میں یہ ثابت کریں کہ ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کا نمونہ ہم خود ہیں۔
حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام نے معراج کے بیان میں کچھ لوگوں کی دردناک حالت کا ذکر کرتے ہوئے
فرمایا:
’’میں
نے جبرئیل ؑ سے پوچھا۔ یہ کون لوگ ہیں؟ جبرائیل ؑ نے کہا یہ آپﷺ کی امت کے وہ مقررین
ہیں جو لوگوں کو نیکی اور تقویٰ کی تلقین کرتے تھے اور خود کو بھولے ہوئے تھے۔‘‘
اللہ کی رضا کے حصول میں اور اس کے
راستے کی طرف دعوت دینے کا مؤثر ذریعہ مخلوق خدا کی بے لوث خدمت ہے۔ ایسی خدمت جو
خالص انسانی قدروں اور خلوص و محبت اور خیر خواہی کے جذبات پر قائم ہو نہ کہ بدلے اور
گھٹیا سودے بازی پر۔ اللہ کی مخلوق سے محبت کا تعلق استوار رکھنا اور اللہ کی مخلوق
ہونے کے ناطے سے ان کی خدمت کرنا خالق کی رضا اور خوشنودی کے حصول کا بہترین ذریعہ
ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔