Topics

اپریل 2002؁۔پیغمبرانہ تعلیمات

’’اللہ وہ ہے جس نے تمہارے لئے زمین، آسمان پیدا کئے اور تمہاری صورتیں بنائیں سو تمہیں اچھی صورتوں سے نوازا۔ اور پاکیزہ چیزوں سے تمہیں روزی دی۔ یہ اللہ ہے تمہارا رب۔ سو برکت والا اللہ سارے جہانوں کا رب ہے‘‘۔  (سورۂ تغابن۔ آیت 3)

              ’’اور اس نے سورج اور چاند کو مسخر کیا۔ ہر ایک مقررہ وقت تک چلتا ہے۔ وہ تفصیل سے نشانیاں بیان کرتا ہے تا کہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرو‘‘۔  (سورۂ رعد۔ آیت 2)

              خدا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ نہ اسے نیند آتی ہے اور نہ اونگھ۔ جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمارے سامنے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ اپنی مخلوق کی خدمت کرتا ہے، پیدائش سے تامرگ اور مرنے کے بعد بھی۔ اپنی مخلوق کے لئے وسائل کی فراہمی ایک ایسی خدمت ہے جو خالق کائنات کا ذاتی وصف ہے۔ اللہ اپنے ہر بندہ کو چاہے وہ گناہگار ہو یا نیکو کار، رزق عطا فرماتا ہے۔ رزق سے استفادہ کرنے کے لئے صحت عطا کرتا ہے۔ زمین کی بساط پر بکھری ہوئی چیزوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے اللہ عقل و شعور کی دولت سے نوازتا ہے، ہماری ہر طرح حفاظت کرتا ہے اور محبت کے ساتھ ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں کو معاف کرتا ہے۔

              قیامت کے روز اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’اے آدم کے بیٹے! میں بیمار پڑا۔ تو نے میری مزاج پُرسی نہیں کی۔ میری عیادت نہیں کی۔‘‘ بندہ کہے گا ’’پروردگارِ عالم آپ ساری کائنات کے رب ہیں بھلا میں آپ کی عیادت کیسے کرتا؟‘‘ اللہ فرمائے گا:

              ’’میرا فلاں بندہ بیمار پڑا تو اس کی عیادت کے لئے نہیں گیا۔ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔ اے آدم کے بیٹے! میں نے تجھ سے کھانا مانگا مگر تو نے مجھے کھانے کو نہیں دیا‘‘۔ بندہ عرض کرے گا ’’اے پروردگار! میں آپ کو بھلا کیسے کھانا دے سکتا ہوں آپ تو عالمین کے رب ہیں؟‘‘ اللہ فرمائے گا:’’میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا مگر تو نے اسے کھانے کو نہیں دیا۔ کیا تجھے معلوم نہیں تھا کہ اگر اسے کھانا دیتا تو اسے میرے پاس ہی پاتا۔ اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا مگر تو نے مجھے پانی نہیں دیا‘‘۔ بندہ کہے گا ’’پروردگار! میں آپ کو پانی کس طرح پلاتا۔ آپ تو عالمین کے رب ہیں؟‘‘ اللہ فرمائے گا ’’کیا تو واقف نہیں تھا کہ میرے فلاں بندے نے پانی مانگا مگر تو نے نہیں دیا۔ سن لے اگر تو اسے پانی پلاتا تو اسے میرے پاس پاتا‘‘۔

              ایک روز آنحضرتﷺ نے حاضرین سے مخاطب ہو کر پوچھا:

              ’’تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟‘‘

              حاضرین نے جواب دیا: ’’یا رسول اللہﷺ! مفلس وہ ہے جس کے پاس مال و اسباب نہ ہو‘‘۔

              حضورﷺ نے فرمایا: ’’میری امت میں قیامت کے دن مفلس وہ ہو گا جو نماز، روزہ، زکوٰۃ سب کچھ لے کر آئے گا لیکن اس نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہوگی، دوسرے پر بدکاری کی تہمت لگائی ہو گی، کسی کا مال چھینا ہو گا، خون کیا ہو گا، مارا ہو گا۔ چنانچہ اس کی تمام نیکیاں ان کو مل جائیں گی جن کے ساتھ اس نے یہ کام کئے ہوں گے۔ اور اس کی نیکیاں اس کے حقوق کی ادائیگی سے پہلے ہی ختم ہو جائیں گی تو پھر لوگوں کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی جن کے ساتھ اس نے ظلم کیا ہو گا اور وہ جہنم کے سپرد کر دیا جائے گا‘‘۔

              حضرت محمد رسول اللہﷺ مکے میں مقیم ہیں اور مکے کے بعض لوگ آپﷺ کے خلاف سازش میں مصروف ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ انہیں شہر سے نکال دو ، کوئی کہتا ہے کہ انہیں قتل کر دو۔ جب حضور نبی کریمﷺ مدینے ہجرت کر گئے تو کچھ عرصے کے بعد مکے کو قحط نے آ گھیرا۔ ایسا قحط کہ قریش کے لوگ پتے اور چھال کھانے پر مجبور ہو گئے۔ بچے بھوک سے بلبلاتے اور بڑے ان کی حالت زار دیکھ کر تڑپ تڑپ اٹھتے تھے۔ رحمتِ کون و مکاں ﷺ لوگوں کو اس لرزہ خیز مصیبت میں مبتلا دیکھ کر بے قرار ہو گئے۔ آپﷺ کے مخلص ساتھی بھی آپﷺ کا اضطراب دیکھ کر تڑپ اٹھے۔ آپﷺ نے اپنے جانی دشمنوں کو، جن کے دیئے گئے زخم ابھی تازہ تھے، اپنی دلی ہمدردی کا پیغام بھیجا۔ اور ابوسفیان اور صفوان کے پاس قحط کے مارے غریبوں کے لئے پانچ سو دینار بھجوائے۔

              پیغمبرانہ تعلیمات یہ ہیں کہ جو کچھ کیجئے خدا کی خوشنودی کے لئے کیجئے۔ اللہ کی نظر سے بندہ کا کوئی عمل پوشیدہ نہیں۔ وہ اپنے مخلص بندوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ رسول اللہﷺ کے اسوۂ حسنہ پر عمل کر کے آپ بھی ملک و قوم کی بے لوث خدمت کیجئے۔

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔