Topics

اپریل 1987؁ء۔رسول اللہ اور تجارت

انسان جب کسی شعبۂ حیات میں قدم رکھتا ہے تو اس کی فطری خواہش یہ ہوتی ہے کہ اس نے زندگی کے جس شعبے کو اختیار کیا ہے اس سے صحیح لطف اٹھانے اور زندگی کو صحیح طرح گزارنے کے لئے اس کے سامنے کوئی اچھا نمونہ ہو۔ وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ قدم قدم پر پیش آنے والے مسائل کو اپنے اسلاف کے تجربوں سے حل کرے اور ان تجربوں کی روشنی میں اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر بنا سکے۔

                ہمارا اللہ۔ ہمارا سب سے بڑا بزرگ، سب سے بڑا دوست اور سب سے بڑا ہمدرد ہے۔ اللہ نے ہماری زندگی کو سنوارنے کے لئے پہلے تو قوانین بنائے اور پھر ان قوانین کو اپنے پیغمبروں کے ذریعے ہم تک پہنچایا۔ یہ سارے قانون ایسے ہیں کہ اس میں اللہ کی کوئی ضرورت، کوئی حاجت، کوئی ذاتی منفعت نہیں ہے۔ سارے قوانین ہماری بھلائی کے لئے ہین۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں نے جب نوع انسانی کو اچھی طرح برائی اور بھلائی کے تصور سے آگاہ کر دیا تو اللہ نے ہمارے دوست اللہ نے اس قانون کو آخری شکل دے کر سیل بند کر دیا تا کہ آئندہ اس میں کوئی رخنہ درانداز نہ ہو……ہمارا دوست اللہ رب العالمین ہے اور اللہ کے دوست رحمت اللعالمینﷺ ہیں۔ رب العالمین کے دوست رحمت اللعالمینﷺ نے جو قانون میں تحریف کی تھی اس کے پیش نظر نوع انسانی کے لئے ایک ضابطۂ حیات بنایا اور اس ضابطے کو اپنی زندگی کے ایک ایک شعبے پر نافذ کر کے نوع انسانی کے لئے مثال پیش کی۔

                اللہ رب العالمین کے دوست رحمت اللعالمینﷺ حضرت محمدﷺ بن عبداللہ ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی ان تمام امور سے تعبیر ہے جس سے نوع انسانی قیامت تک گزرتی رہے گی۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی پوری زندگی آپﷺ کی سیرت ہے۔ سرور عالم کی سیرت کا کمال یہ ہے کہ وہ بیک وقت زندگی کے تمام شعبوں میں انسان کی رہنمائی کرتی ہے۔ آپﷺ کی حیا طیبہ کسی خاص جماعت، کسی خاص قوم، کسی خاص ملک اور کسی خاص زمانے کے لئے نہیں تھی اور نہ ہے۔ آپﷺ کی زندگی، آپﷺ کی سیرت رب العالمین کے بنائے ہوئے سارے عالمین کے لئے ہے…دنیا کا ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق آپﷺ کی منور زندگی کی روشنی میں اپنی زندگی بہتر بنا سکتا ہے۔ آپﷺ کی زندگی میں ادب و اخلاق، معاشرت اور معیشت، حسن اخلاق، عدل اور ایفائے عہد کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جو ہمیں آپﷺ کی حیات میں نہ ملتا ہو۔

                تجارت:  ایک تاجر کاروباری انسان کی زندگی کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ وہ حسن معاملہ کا خوگر ہو اور ایفائے عہد کا پابند ہو اور اس کے اندر حوصلہ ہو۔ اگر کسی تاجر کی زندگی میں یہ تینوں وصف نہ ہوں تو وہ کبھی اچھا تاجر نہیں بن سکتا۔

                ایفائے عہد:  ایک صحابی بیان فرماتے ہیں کہ نبوت سے پہلے میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے تجارتی معاملہ کیا تھا۔ ابھی وہ معاملہ پورے طور پر طے نہیں ہوا تھا کہ میں کسی ضرورت سے یہ وعدہ کر کے چلا آیا کہ میں ابھی آتا ہوں۔ اتفاقاً ایک لمبے وقفے کے بعد جب مجھے اپنا وعدہ یاد آیا تو میں اس جگہ پہنچا۔ میں نے دیکھا کہ آپﷺ میرا انتظار فرما رہے ہیں۔ میری اس پیمان شکنی اور لاپرواہی پر بغیر کسی ناراضگی کے ارشاد فرمایا، تم نے مجھے بہت زحمت دی میں بہت دیر سے تمہارا منتظر ہوں۔

                عدل و انصاف:  مکہ فتح ہونے کے بعد عرب میں صرف طائف باقی رہ گیا تھا جو فتح نہیں ہوا تھا۔ مسلمان بیس روز تک طائف کا محاصرہ کئے ہوئے پڑے رہے مگر طائف فتح نہیں ہوا۔ اور مسلمانوں کو محاصرہ اٹھا لینا پڑا…صخر ایک رئیس تھا، اس نے طائف والوں کو اتنا مجبور کیا کہ وہ صلح پر آمادہ ہو گئے۔ صخر نے اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اطلاع دی۔ جب طائف اسلام کے ماتحت آ گیا تو مغیرہ بن شعبہ جو طائف کے رہنے والے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں آپﷺ سے انصاف چاہتا ہوں۔ صخر نے میری پھوپھی پر قبضہ کر لیا ہے۔ میری پھوپھی صخر سے واپس دلائی جائے۔ اس کے بعد بنو سلیم آئے اور انہوں نے کہا کہ صخر نے ہمارے چشموں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ ہمارے چشموں کو واپس دلایا جائے…آپﷺ نے فرمایا۔ اگرچہ صخر نے ہمارے اوپر احسان کیا ہے لیکن احسان کے مقابلے میں انصاف کا دامن کبھی نہیں چھوٹنا چاہئے…اسی وقت آپﷺ نے صخر کو حکم دیا کہ مغیرہ کی پھوپھی کو ان کے گھر پہنچا دو اور بنو سلیم کے پانی کے چشمے واپس کر دو۔

                دوستی اور تعلقات پر اگر گہری نظر ڈالی جائے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ دوستی اور محبت کی بنیادیں خلوص، باہمی ارتباط اور ایک دوسرے کی ہمدردی سے مستحکم ہوتی ہیں۔ دیکھئے کہ آپﷺ بحیثیت ایک دوست اور ساتھی ہونے کے اپنے دوستوں اور ساتھیوں کے ساتھ کس طرح پیش آتے تھے۔

                ایک سفر میں صحابہ کرامؓ نے کھانا پکانے کا انتظام کیا اور ہر ایک نے ایک ایک کام اپنے ذمے لے لیا۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لائوں گا۔ صحابہؓ نے کہا کہ ہمارے ماں باپ قربان! آپﷺ کو زحمت فرمانے کی ضرورت نہیں، ہم سب کام خود انجام دے لیں گے…ارشاد فرمایا۔ یہ صحیح ہے لیکن خدا اس بندے کو پسند نہیں کرتا جو دوسروں سے اپنے آپ کو نمایاں کرتا ہو۔

                معیشت:  آپﷺ مزدوروں کی مشکلات حل کرتے ہوئے فرمایا کہ مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری ادا کی جائے۔ آپﷺ نے سرمایہ دارانہ ذہنیت، سرمایہ دارانہ اخلاق اور سرمایہ دارانہ نظام کو قلع قمع کر کے دنیا پر خوشحالی، امن اور بلند اخلاقی کے دروازے کھول د یئے۔

                خود غرض اور نفس پرست سرمایہ داروں نے جن مصیبتوں کو انسانوں پر مسلط کیا ہے وہ بلیک مارکیٹنگ اور چور بازاری ہے جو غریبوں کے لئے عذاب الیم سے کم نہیں ہے۔ آپﷺ نے ان لوگوں پر جو غذائی اجناس اور دوسری اشیاء کو محض نفع اندوزی کی خاطر روک رکھتے ہیں، بہت بڑی ذمے داری عائد کی ہے۔

                آپﷺ نے فرمایا۔ ’’جو لوگ غذائی اجناس اور دوسری اشیاء کو ذخیرہ کر لیتے ہیں تا کہ بازار میں مصنوعی طور پر قلت ہو جائے اور قیمت بڑھ جائے تو وہ بڑے گناہگار ہیں۔‘‘

                آپﷺ نے فرمایا۔ ’’اللہ اس آدمی پر رحم کرتا ہے جو خریدنے، بیچنے اور تقاضا کرنے میں نرمی اختیار کرتا ہے۔‘‘

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔