Topics
اللہ وہ ہے جو ہوائوں کو اپنی رحمت کی
بشارت بنا کر بھیجتا ہے وہ آسمان سے آب مصفیٰ (بارش) برسا کر مردہ بستیوں کو
زندہ کر دیتا ہے۔ یہ پانی تمام ذی حیات کے لئے مدار حیات ہے ہم پانی کو مختلف
صورتوں میں بدلتے ہیں تا کہ لوگ فائدہ اٹھائیں۔ لیکن کفار ہماری نہیں سنتے۔ (سورہ فرقان ۴۸ تا ۵۰)
پانی
مرکب ہے اور روح بسیط ہے۔ پانی کا قطرہ تک فنا نہیں ہو سکتا۔ دریا سے اٹھا تو بادل
بن گیا۔ وہاں سے ریگستان میں ٹپکا تو دوبارہ فضا میں اڑ گیا۔ باغ میں برسا تو اوس
بن کر پھل میں جا پہنچا۔ وہاں سے ہمارے پیٹ میں آیا اور یہاں آیا تو جزو جسم بن
کر باقی رہا۔ یا گردوں وغیرہ کے راستے پھر باہر نکل گیا اور اگر سمندر میں ٹپکا تو
گویا وطن میں پہنچ گیا۔ الغرض قطرۂ آب کسی نہ کسی رنگ میں موجود رہتا ہے۔ اگر
پانی باوجود مرکب ہونے کے زندہ رہتا ہے تو روح کو جو بسیط ہے بدرجۂ اولیٰ باقی
رہنا چاہئے جس طرح آفتابی شعاعیں پیاسے ریگستان میں ٹپکے ہوئے قطروں کو ڈھونڈ کر
آسمان بلندیوں کی طرف واپس لے جاتی ہیں اسی طرح زندگی کے یہ تمام قطرے جو اجسام
انسان کے خاک دانوں میں ٹپک پڑتے ہیں لامکانی وسعتوں میں دوبارہ پہنچ جائیں گے۔
کیا
یہ لوگ قیامت کے متعلق سوال کر رہے ہیں اور اس حقیقت کبریٰ کے متعلق ان میں اختلاف
پایا جاتا ہے انہیں عنقریب یقین حاصل ہو جائے گا اور یقیناً ہوگا۔ کیا ہم نے زمین
کو گہوارہ نہیں بنایا۔ (سورۃ النبا۔ ۱ تا ۶)
زمین
پر سورج ہمیں روشنی دیتا ہے۔ بادل، پانی، درخت اور پھل ہمیں قوت بخشتے ہیں اور کچھ
عرعصہ کے بعد ہم اس گہوارہ کو چھوڑ کر دوسری دنیا میں چلے جاتے ہیں جس طرح کہ پرندے
کی اصل دنیا آشیانے سے باہر ہے اسی طرح ہماری اصل زندگی کہیں اور ہے یہاں ہم صرف
چند سو گوار گھڑیاں بسر کرنے کے لئے آتے ہیں اور بس……
اور
ہم اس دنیا کو چھوڑ کر دوسری دنیا میں چلے جاتے ہیں۔ یہاں ہم صرف چند روز بسر کرنے
کے لئے آئے ہیں اور بالآخر اس دنیا کو چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں گے……
کائنات
میں اللہ کی نشانیوں کی تلاش و جستجو کے لئے قرآن کریم نے ان الفاظ میں ترغیب دی
ہے۔
’’اور
وہی ہے جس نے تمہارے لئے ستارے بنائے کہ بیابانوں اور سمندروں کے اندر اندھیروں
میں راہ تلاش کر لو۔ بلاشبہ ہم نے ان لوگوں کے لئے جو جاننے والے ہیں اپنی ربوبیت
اور رحمت کی نشانیاں کھول کھول کر بیان کر دی ہیں۔‘‘ (سورہ روم)
’’کیا
تو نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ اللہ بادل سے پانی برساتا ہے پھر ہم اس کے ذریعہ
انواع و اقسام کے پھل نکالتے ہیں اسی طرح پہاڑوں
میں سفید و سرخ خطے ہیں جن کی رنگت ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ ان میں سے بعض
گہرے سیاہ ہیں۔ اسی طرح انسانوں، جانوروں اور چوپایوں میں بھی رنگوں کا اختلاف
ہے۔‘‘ (سورہ فاطر)
بلاشبہ
چارپایوں میں سوچنے سمجھنے کی بڑی عبرت ہے ہم ان کے جسم سے خون اور کثافت کے
درمیان دودھ پیدا کرتے ہیں یہ پینے والوں
کے لئے ایسی لذیذ چیز ہوتی ہے کہ وہ بے غل غش اٹھا کر پی لیتے ہیں اسی طرح کھجور
اور انگور کے درختوں کے پھل ہیں کہ ان سے نشہ اور عرق اور اچھی غذا دونوں طرح کی
چیزیں تم حاصل کرتے ہو۔ اور دیکھو تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ
بات ڈال دی کہ پہاڑوں میں درختوں میں اور ان ٹہنیوں میں جو اس غرض کے لئے بلند بنا
دی جاتی ہیں اپنا چھتہ بنائے۔ پھر ہر طرح کے پھولوں سے رس چوستی پھر اپنے پروردگار
کے ٹھہرائے ہوئے طریقہ پر پوری فرماں برداری کے ساتھ گامزن ہو جائے۔ دیکھو اس کے
پیٹ سے مختلف رنگوں کا رس نکلتا ہے۔ اس میں انسان کے لئے شفا ہے بلاشبہ اس صورت
حال میں ان لوگوں کے لئے ایک نشانی ہے جو غور و فکر کرنے والے ہیں۔ (سورۃ النحل)
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔