Topics

دُکھ سُکھ

سوال:  میں اسکول کے زمانے سے آپ کی تحریر کو بڑے شوق سے پڑھتی رہی ہوں۔ میرے پاس آپ کی کتابیں ہیں اور روحانی ڈائجسٹ بھی لگوایا ہوا ہے۔ ان سے استفادہ حاصل کرتی رہتی ہوں۔ ہر جمعرات کو خیرات کرتی ہوں۔ مہینے کی ستائیسویں کو حضور قلندر بابا اولیاءؒ کے لئے پیسے بھی دیتی ہوں۔

میری کہانی کچھ اس طرح ہے کہ ہم بہن بھائی بہت چھوٹے تھے کہ ماں فوت ہو گئی۔ اس کے بعد ابا نے دوسری شادی کی۔ ہمارے اوپر جتنے ظلم کرنے تھے سب نے کئے۔ گویا نئی ماں کے اور اس کے بچوں کے نوکر تھے۔

ہم بہنوں کی شادی ہو گئی۔ ساس کو ہمیں تکلیفیں دے کر بہت راحت ملتی ہے۔ خاوند گڈو بادشاہ ہیں۔ نند جو جی میں آتا ہے کہہ جاتی ہیں۔ خاوند کو مطلب کے بغیر بیوی نظر ہی نہیں آتی۔ پریشان رہ کر سو بیماریاں لگ گئی ہیں۔ یا حی یا قیوم پڑھنے سے دل کو کچھ سکون ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بچے دے دیئے ہیں۔ بچوں کی خاطر اپنی زندگی قربان کی ہے کہ ان سے خوشیاں مل جائیں تو سمجھیں گے کہ کبھی کوئی پریشانی نہیں آئی لیکن بچے بے حد نافرمان ہیں۔ ہر وقت جھگڑتے اور آپس میں دھینگا مشتی کرتے ہیں۔ نماز کا انہیں پتہ نہیں۔ پڑھائی سے جی چراتے ہیں۔ ہمارا کہنا بالکل نہیں مانتے چیخ چیخ کر بولتے ہیں۔ ایسے میں جب کہ ہمارا آخری سہارا یہی تھا کہ بچے ہی اپنے ہوں گے۔ آپ خود ہی سوچیں کہ پھر ہماری زندگی کیا ہے۔ کچھ بھی نہیں۔ پیار نام کی چیز ہم نے نہیں دیکھی۔

آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا واسطہ، ان کے صدقہ میں ہماری فریاد سن لیں۔ میں نے پہلے بھی مراقبہ میں بچوں کے لئے دعا کا لکھا تھا، اب پھر لکھ رہی ہوں کہ بچوں کے لئے مراقبہ میں دعا کریں اور روحانی ڈائجسٹ میں جواب دیں۔ مجھے پتہ ہے کہ آپ بہت مصروف ہیں لیکن میرے لئے کچھ ٹائم دے دیں تو بڑی نوازش ہو گی۔ آپ کو دکھ سنا کر ہلکا پن محسوس کر رہی ہوں۔

جواب: کسی سے ہرگز توقع قائم نہ کریں توقع صرف اور صرف اللہ سے قائم کریں۔ بچوں کی تربیت یہ سوچ کر کریں کہ آپ کو اللہ نے بچے اس لئے دیئے ہیں کہ اللہ آپ سے ان کی تربیت کرانا چاہتا ہے، بچوں سے محبت کریں اور ان سے خوش اخلاقی سے بات کریں۔ ہر وقت کی ڈانٹ ڈپٹ اچھی نہیں ہوتی۔ انشاء اللہ بچے نیک اور سعادت مند نکلیں گے۔ رات کو جب وہ سو جائیں تو ایک بار سورہ کوثر پڑھ کر پھونک مار دیا کریں۔ کھانا اور ناشتہ ہمیشہ بچوں کو ساتھ کرائیں۔ الگ الگ کھانا نہ دیں۔ بچوں کی عمر کے مطابق انہیں چھوٹی چھوٹی چیزیں لا کر دیں۔

Topics


خواتین کے مسائل

خواجہ شمس الدین عظیمی