Topics

گو شت پو ست کا وجود

آدم و حوّاکی اولا د میں ہرفرد دراصل آدم و حوّاکا عکس ، تمثل اور فو ٹو ہے ۔ جس طر ح آدم کے اندر علم الاسماء سیکھنے کی صلا حیت موجود تھی اس ہی  طر ح ہر فر د میں وہ صلاحیت اللہ کی طر ف سے ودیعت ہے ۔ ہم بتا چکے ہیں اصل انسان رُو ح   ہے اور انسان کی زندگی کے سارے تقاضے رُو ح   سے منتقل ہو تے ہیں جب تک اس جسم (گوشت پو ست کے لو تھڑے ) کو رُو ح   زندہ اور متحرک رکھتی ہے ۔ گو شت پو ست کے جسم میں حرکت باقی رہتی ہے ۔اورجب رُوح اس گوشت پوست کے جسم سے اپنا رشتہ منقطع کر لیتی ہے تو گوشت پوست کے جسم  میں کو ئی حر کت با قی نہیں رہتی ۔ اور یہ رُو ح   وہی رُو ح   ہے جس کو اللہ نے اپنی نیابت دی ہے ۔ آدم نے جنت میں جس وقت اللہ کے حکم سے سر تا بی کی ۔ اسی وقت رُو ح   کے اوپر ایک پر دہ آگیا ۔ اور وہ امانت جس کی بنیاد پر وہ کائنات میں اشرف تھا پس پر دہ چلی گئی یہی پر دہ جسمانی گو شت پوست ہے ۔

جب تک کسی بھی آدم زاد کی دل چسپیاں اس جسم سے وابستہ رہتی ہیں رُو حانی  صلا حیتیں چھپی رہتی ہیں اوار جب کسی بھی آدم زاد کو اس بات کا علم ہو جا تا ہے کہ گوشت پو ست کا جسم دراصل نا فر ما نی کر نے کے جرم میں ایک پر دہ ہے ۔ تو اس کا ذہن حقیقت کی تلاش میں مصروف ہو جا تا ہے اور یہ تلاش اسے اس امانت سے با خبر کر دیتی ہے جس امانت کی وجہ سے کا ئنات کے اوپر انسان کو شرف حاصل ہے ۔

کسی علم کو سیکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس استاد کو اپنا رہنما بنا ئیں اور جس طر ح استاد کہے بلا چوں چراذہنی طور پر اس کو قبول کر لیں ۔ جب کو ئی شا گرد بنتا ہے تو استاد شاگر د سے کہتا ہے پڑھو الف شا گر د کچھ نہیں جا نتا کہ الف کیا ہے ۔ وہ اپنے استاد کی نقل میں کہتا ہے الف اور دھیرے دھیرے استاد کی نقالی کر تے ہو ئے وہ علم سیکھتا چلا جا تا ہے لیکن وہ بچہ پہلے قدم پر استاد سے یہ کہے کہ الف کیا ہے تو علم حاصل نہیں کر سکتا اس لئے جس وقت استاد شاگر دسے کہتا ہے پڑھو الف تو اس کی ذہنی سکت اتنی ہی ہو تی ہے کہ وہ جواباً کہے الف ۔ہم کتنے بھی پڑھ لکھ کر فا ضل ہو جا ئیں کتنی ہی ڈگر یاں حاصل کر لیں امانت اور رو حانیت کے لئے ہماری پوزیشن ایک ایسے شاگر د کی ہے جو پہلی مرتبہ مکتب میں داخل ہو تا ہے ۔ 


Topics


قلندرشعور

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب میں جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے قلندرکی تعریف  یہ بیان کی ہے کہ " یہ لوگ غرض ، طمع، حرص اورلالچ سے بے نیازہوتے ہیں ۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے میڈیم سے ہی چیزوں کو دیکھتے ، پرکھتے  اوراس کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں ۔کتاب قلندرشعور میں آپ نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ ہم کون سا طرزعمل اختیارکرکے ذہن کی ہر حرکت کے ساتھ اللہ کا احساس قائم کرسکتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں ذہن انسانی ، اللہ کی صفات کا قائم مقام بن جاتاہے ۔ 

روحانی علوم کے متلاشی خواتین وحضرات ، راہ سلوک کے مسافر عرفان حق کے طالب ، سائنسی علوم کے ماہر اورروحانی علوم کے مبتدی طلبا وطالبات کے لئے یہ کتاب مشعل راہ ہے ۔ قلندرشعورٹیکنالوجی عقل وشعور کی پرپیچ وادیوں میں سے گزار کر روحانی سائنس کے طلباء وطالبات کو شعوری دنیا سے اس پار(ماورائی عالم ) میں داخل کردیتی ہے ۔