Topics
کائنات اور اس کے اندر مظاہرات ہر لمحہ اور ہر آن ایک سرکل میں سفر کر رہے ہیں اور کائنات میں ہر مظہر ایک دو سرے سے آشنا اور متعارف ہے ۔ تعارف کا یہ سلسلہ خیالات پر مبنی ہے ۔ سائنس نے آپس میں اس تبادلہ خیال اور رشتہ کو توانائی کا نام دیا ہے ۔ سائنس کی رُو سے کائنات کی کسی شئے کو خواہ وہ مر ئی(VISIBLE) ہو یا غیر مرئی(INVISIBLE) کلیتہً فنا نہیں ۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ مادہ مختلف ڈائیوں میں نقل مکانی کر کے توانائی بن جا تا ہے اور توانائی رو پ بدل بدل کر سامنے آتی رہتی ہے ۔ مکمل موت کسی پر بھی وارد نہیں ہو تی ۔ رُو حانیت میں ایسی توانائی کو رُو ح کا نام دیا گیا ہے. رُو ح کو جو علم ودیعت کر دیا گیا ہے وہی علم خیالات تصورات اور احساسات بنتا ہے ۔ یہ خیالات اور تصورات لہروں اور شعاعوں کے دوش پر ہمہ وقت, ہر آن ہر لمحہ مصروف سفر رہتے ہیں ۔ اگر ہمارا ذہن ان لہروں کو پڑھنے اور ان کو حرکت دینے پر قدرت حاصل کرلے تو ہم کا ئنات کے تصویر خانوں میں خیالات کے ردوبدل میں وقوف حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن جب تک کائنات کی کنہ سے ہم با خبر نہیں ہو نگے، کائنات کے قلب میں قدم نہیں رکھ سکتے ۔ کائنات اور آسمان ِدنیا میں داخل ہو نے کے لئے ضروری ہے کہ ہم سانس کے اس رخ پر کنٹرول حاصل کر لیں جس رخ پر صعودی حرکت کا قیام ہے ۔
سانس کا گہرائی میں جانا لا شعور ہے اور سانس کا گہرائی سے مظاہراتی سطح پر آنا شعور ہے ۔ شعوری زندگی حرکت میں ہو تی تو لا شعوری زندگی پردے میں چلی جا تی ہے ۔ اور لاشعوری زندگی میں شعوری حرکات مغلوب ہو جاتی ہیں ۔ اس قانون سے باخبر ہو نے کے لئے شعور ی اور لا شعوری دونوں تحر یکات کا علم حاصل کر نا ضروری ہے ۔ ذہن کی پر اسرار قوتیں اسی وقت کام کر تی ہیں جب ذہن سانس کی صعودی حرکت کااحاطہ کرلے ۔ ایسا ہو جانے سے ہمارے اندر مر کزیت اور توجہ کی صلاحیتیں بروے کار آجاتی ہیں ۔
یاد رکھئے !ہمارے انر(INNER) میں نصب شدہ انٹینا(ANTENA) اس وقت کچھ نشر کر نے یا قبول کر نے کے قابل ہو تاہے جب ذہن میں توجہ اور مرکزیت کی صلاحیتیں وافر مقدار میں موجود ہوں ۔ ان صلاحیتوں کا ذخیرہ اس وقت فعال اور متحرک ہو تا ہے جب ہم اپنی تمام تر توجہ ،یکسوئی اور صلا حیتوں کے ساتھ صعودی حرکت میں ڈوب جا ئیں ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب میں جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے قلندرکی تعریف یہ بیان کی ہے کہ " یہ لوگ غرض ، طمع، حرص اورلالچ سے بے نیازہوتے ہیں ۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے میڈیم سے ہی چیزوں کو دیکھتے ، پرکھتے اوراس کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں ۔کتاب قلندرشعور میں آپ نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ ہم کون سا طرزعمل اختیارکرکے ذہن کی ہر حرکت کے ساتھ اللہ کا احساس قائم کرسکتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں ذہن انسانی ، اللہ کی صفات کا قائم مقام بن جاتاہے ۔
روحانی علوم کے متلاشی خواتین وحضرات ، راہ سلوک
کے مسافر عرفان حق کے طالب ، سائنسی علوم کے ماہر اورروحانی علوم کے مبتدی طلبا
وطالبات کے لئے یہ کتاب مشعل راہ ہے ۔ قلندرشعورٹیکنالوجی عقل وشعور کی پرپیچ
وادیوں میں سے گزار کر روحانی سائنس کے طلباء وطالبات کو شعوری دنیا سے اس پار(ماورائی عالم ) میں داخل
کردیتی ہے ۔