Topics

آکسیجن اور جسمانی نظام

موجودہ علمی اور سائنسی دور نے یہ بات معلوم کر لی ہے کہ انسان کو اگر کچھ وقفے کے لئے آکسیجن نہ ملے تو اس کے دماغ میں کام کر نے والے کھر بوں خلیوں کا عمل ختم ہو جا تا ہے ۔ سارا جسم آکسیجن کے اوپر قائم ہے اور سائنس کی آمد و شد یا عمل تنفس ہَوا سے آکسیجن حاصل کر نے میں ہمہ وقت مصروف رہتا ہے ۔

ہَوا ناک یا منہ کے ذریعے جسم میں کھنچی جا تی ہے اور آوا زکے خانے (LARYNX)سے گزرتی ہو ئی ہَوا کی خاص نا لی (TRACHEA)میں جا تی ہے اور پھر وہاں سے نالیوں کے ایک نازک نظام میں داخل ہو جا تی ہے۔ جیسے جیسے ہَوا  آگے بڑھتی ہے ہَوا کا دبا ؤ زیادہ ہو تا ہے ۔ ان نا لیوں کا قطر بتدریج چھو ٹا ہوتا ہے۔چنا چہ ہوا پھیپھڑوں کے انتہا ئی گہرا ئیوں تک پہنچ جا تی ہے جہاں تقریباً تین سو ملین ہوا کی تھیلیوں سے گزر کر آکسیجن خون میں داخل ہو جا تی ہے ۔ اگر ہَوا کا دبا ؤ صیحح ہو اور آکسیجن کی مقدار بھی صیحح ہو تو پھر وہ آسانی سے ہَوا کی تھیلیوں اور با ریک رگوں کی جھلیوں میں سے ہو کر اندر پھیل جا تی ہے ۔ جب ہم اندر سانس کھنچتے ہیں تو سینے کی خا لی جگہ بڑی ہو جا تی ہے۔ لہذا ہَوا تیزی سے اندر چلی جا تی ہے ۔ پھر ہم جب سانس با ہر نکالتے ہیں تو پھیپھڑوں کا لچک دار نظام ہَوا کو با ہر پھینک دیتا ہے۔ 

سانس لینے کا مقصد بھی یہی ہے کہ جسم میں منا سب مقدار میں آکسیجن پہنچتی ہے ۔ تا کہ خلیوں میں ننھی ننھی انگیٹھیاں دہکتی رہیں ۔ اور کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہو تا رہے۔ انسان جب آرام کر تا ہے تو وہ ایک منٹ میں دس سے سو لہ بار تک سانس لیتا ہے۔ اور تقریباً ایک پوا ئنٹ ہَوا اندونی جسمانی نظام میں داخل ہو تی رہتی ہے۔ جب آکسیجن کی ضرورت پیش آتی ہے تو سانس لینے کی رفتار میں اضا فہ ہو جاتا ہے۔ عام طور پر سانس کی رفتار گہرا ئی خود بخود دماغ کنٹرول کر تا رہتا ہے ۔ 

قدرت نے انسان کے اندر صلا حیت پیدا کی ہے کہ وہ حسب ضرورت سانس میں تیزی یا کمی پیدا کر سکتا ہے ۔ انسان اگر ذہنی طور پر صحت مند ہے تو بیشتر حالات میں اسے سانس پر اختیار حاصل ہو تا ہے ۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ پیرا کی کے دو ران جب آدمی غوطہ لگا کر پا نی کے نیچے چلا جا تا ہے تو اسے سانس رو کنے کی ضرورت پیش آتی ہے ۔ اور یہ کام وہ آسانی کے ساتھ کر لیتا ہے، اور جب جما ئی آتی ہے یا گہرا سانس لیا جا تا ہے تو اسے سکون حاصل ہو تا ہے جب سانس کی نالی میں کو ئی خرابی واقع ہو جا تی ہے تو آدمی بے حد سراسیمہ ہو جا تا ہے اور اس کا دم گھٹنے لگتا ہے ۔ مختصر یہ ہے کہ زندگی کا قیام سانس کے اوپر ہے ۔ سانس جا ری ہے تو زندگی بر قرار ہے اور سانس کا سلسلہ ختم ہو جا تا ہے تو زندگی بھی ختم ہو جا تی ہے ۔ 

سانس کا تعلق آکسیجن کے اوپر ہے ۔ آکسیجن کا ایک بڑا ذخیرہ دماغ کے ایک مخصوص حصے میں جمع رہتا ہے۔ دماغ کا یہ وہی حصہ ہے جو د ل کی دھڑکن اور عمل تنفس کو بر قرار رکھتا ہے ۔ فی الواقع انسان کی موت اس وقت واقع ہو تی ہے جب دماغ کے اندر آکسیجن کا پو را ذخیرہ ختم ہو جا ئے ۔ دل کی حرکت اگر بند ہو جا نے سے موت واقع ہو جا ئے اور دماغ کے اندر آکسیجن کا ذخیرہ موجود ہے اس عمل  موت کو مر نا نہیں کہتے ۔ طبی اصطلاح میں اسے 'سکتہ' کہا جا تا ہے ۔ یہ روز مرہ مشاہدے کی بات ہے کہ بیمار کو نا زک حالت میں آکسیجن دی جاتی ہے ۔ اور اس طر ح بڑی سے بڑی بیماری  پرعارضی طور پر سہی مگر غلبہ حاصل کر لیا جا تا ہے۔ احسن ا لخالقین اللہ نے ہمارے پھیپھڑوں کی تخلیق کچھ اس طر ح کی ہے کہ تمام جسم کا خون تین منٹ میں پھیپھڑوں کے راستے آکسیجن لیکر واپس جسم میں چلا جا تا ہے ۔مطلب یہ ہے کہ ہر تین منٹ کے بعد جسم میں دور کر نیو الا خون آکسیجن لینے کے لئے دو با رہ پھیپھڑوں میں آجا تا ہے ۔ ہم جب سانس اندر کھنچتے ہیں تو ہوا میں اکیس فیصد آکسیجن ہمارے اندر چلی جا تی ہے ۔اور جب ہم سانس با ہر نکالتے ہیں تو آکسیجن خرچ ہو نے کے بعد تقریباً بارہ فی صد رہ جا تی ہے۔ مشق کے ذریعے اگر دما غ کے اندر آکسیجن کا ذخیرہ کر لیا جا ئے اور رُو حانی  طر زوں میں اس ذخیرے کو استعمال کر نے کا طریقہ بھی سیکھ لیا جا ئے تو اپنے ارادے اور اختیار سے دل کی دھڑکن اور عملِ تنفس کو بند کر کے آدمی مہینوں تک زندہ رہ سکتا ہے اور اپنے ارادے اور اختیار سے دنوں ، ہفتوں اور مہینوں کی عارضی موت سے نجات حاصل کر لیتا ہے ۔ 


Topics


قلندرشعور

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب میں جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے قلندرکی تعریف  یہ بیان کی ہے کہ " یہ لوگ غرض ، طمع، حرص اورلالچ سے بے نیازہوتے ہیں ۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے میڈیم سے ہی چیزوں کو دیکھتے ، پرکھتے  اوراس کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں ۔کتاب قلندرشعور میں آپ نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ ہم کون سا طرزعمل اختیارکرکے ذہن کی ہر حرکت کے ساتھ اللہ کا احساس قائم کرسکتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں ذہن انسانی ، اللہ کی صفات کا قائم مقام بن جاتاہے ۔ 

روحانی علوم کے متلاشی خواتین وحضرات ، راہ سلوک کے مسافر عرفان حق کے طالب ، سائنسی علوم کے ماہر اورروحانی علوم کے مبتدی طلبا وطالبات کے لئے یہ کتاب مشعل راہ ہے ۔ قلندرشعورٹیکنالوجی عقل وشعور کی پرپیچ وادیوں میں سے گزار کر روحانی سائنس کے طلباء وطالبات کو شعوری دنیا سے اس پار(ماورائی عالم ) میں داخل کردیتی ہے ۔