Topics
عید کا چاند دیکھنے کے بعد بچوں کی عیدی کے سلسلے میں فکر لا حق ہو ئی اور میں اپنے دو ست کے پاس کچھ رو پے ادھار لینے چلا گیا ۔ دو ست نے مجھ سے کہا کہ رو پے تومیرے پاس موجود ہیں لیکن کسی کی امانت ہیں طبیعت نے اس بات کو گوارہ نہیں کیا کہ دوست کو امانت میں خیانت کر نے کا مجرم قرار دیا جا ئے ۔وہاں سے چلتا ہوا با زار میں آگیا وہاں مجھے ایک دوست ملے بہت اچھی طر ح پیش آئے اور انہو ں نے پیش کش کی کہ آپ کو عید کے سلسلے میں کچھ روپے پیسوں کی ضرورت ہو تو بلا تکلف لے لیں لیکن میں نے ان کی پیش کش کو نا منظور کر دیا ۔ انہو ں نے کہا ۔’’صاحب میں نے آپ سے کسی زمانے میں کچھ روپے ادھار لئے تھے وہ میں ادا کر نا چا ہتا ہوں ۔‘‘ اور انہو ں نے میری جیب میں ساٹھ روپے ڈال دئیے اور میں گھر چلا آیا اور ان ساٹھ رو پے سے عید کی تمام ضروریات پو ری ہو گئیں ۔ ‘‘
اس واقعے کے اندر بہت زیادہ غور طلب بات یہ ہے کہ دوست سے میں تیس رو پے ادھار لینے گیا تھا اور اللہ نے مجھے اتنے پیسے دلوا دیے جو میری ضرورت کے لئے کا فی تھے ۔ ظاہر ہے کہ اگر تیس رو پے بطور قرض مل جا تے تو ضرورت پو ری نہ ہو تی ۔ میں نے صرف یہ دو واقعات گوش گزار کئے ہیں اس قسم کے بے شمار واقعات میری زندگی میں پیش آتے رہے ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب میں جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے قلندرکی تعریف یہ بیان کی ہے کہ " یہ لوگ غرض ، طمع، حرص اورلالچ سے بے نیازہوتے ہیں ۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے میڈیم سے ہی چیزوں کو دیکھتے ، پرکھتے اوراس کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں ۔کتاب قلندرشعور میں آپ نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ ہم کون سا طرزعمل اختیارکرکے ذہن کی ہر حرکت کے ساتھ اللہ کا احساس قائم کرسکتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں ذہن انسانی ، اللہ کی صفات کا قائم مقام بن جاتاہے ۔
روحانی علوم کے متلاشی خواتین وحضرات ، راہ سلوک
کے مسافر عرفان حق کے طالب ، سائنسی علوم کے ماہر اورروحانی علوم کے مبتدی طلبا
وطالبات کے لئے یہ کتاب مشعل راہ ہے ۔ قلندرشعورٹیکنالوجی عقل وشعور کی پرپیچ
وادیوں میں سے گزار کر روحانی سائنس کے طلباء وطالبات کو شعوری دنیا سے اس پار(ماورائی عالم ) میں داخل
کردیتی ہے ۔