Topics

توکل اور بھر وسہ

عام حالات میں جب استغناکا تذکرہ کیا جا تا ہے تو اس کا مطلب یہ ہو تا ہے کہ اللہ کے اوپر کتنا توکل اور بھر وسہ ہے ۔ تو کل اور بھر وسہ کم و بیش ہر آدمی کی زندگی میں داخل ہے لیکن جب ہم تو کل اور بھر وسے کی تعریف کر تے ہیں تو ہمیں بجز اس کے کچھ نظر نہیں آتا کہ ہماری دو سری عبادات کی طر ح تو کل اور بھر وسہ بھی لفظوں کا خوشنما جال ہے ۔ تو کل اور بھر وسے سے مراد یہ ہے کہ بندہ اپنے تمام معاملات اللہ کے سپر د کردے لیکن جب ہم فی العمل زندگی کے حالات کا مشاہدہ کر تے ہیں تو یہ بات محض لفظی اور غیر یقینی نظر آتی ہے ۔ اوریہ ایسی بات ہے کہ ہر آدمی کی زندگی میں اس کا عمل دخل ہے ۔ ہر آدمی کچھ اس طر ح سوچتا ہے کہ ادارے کا مالک یا سیٹھ اگر مجھ سے نا راض ہوگیا تو ملازمت سے بر خا ست کر دیا جاؤں گا ۔ یا میری تر قی نہیں ہو گی یا تر قی تنزلی میں تبدیل ہو جا ئے گی ۔ یہ بات بھی ہمارے سامنے ہے کہ جب کسی کام کا نتیجہ اچھا مر تب ہو تا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ یہ نتیجہ ہماری عقل ، ہماری ہمت اور ہماری فہم و فراست سے مر تب ہو اہے ۔ اس قسم کی بے شمار مثالیں ہیں ۔ جن سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ بندے کا اللہ کے ا وپر توکل اوربھر وسہ محض مفرو ضہ ہے ۔ جس بندے کے اندر تو کل اور بھر وسہ نہیں ہو تا اس کے اندر استغنا بھی نہیں ہو تا ۔ تو کل اور بھر وسہ دراصل ایک خاص تعلق ہے جو بندے اوراللہ کے درمیان قائم ہے۔ اور جس بندے کا اللہ کے ساتھ یہ تعلق قائم ہو جاتا ہے اس کے اندر سے دنیا کا لالچ نکل جا تا ہے ۔ ایسا بندہ دوسرے تمام بندوں کی مددواستعانت سے بے نیاز ہو جا تا ہے۔ وہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ کی صفات یہ ہیں کہ اللہ ایک ہے ۔اللہ بے نیاز ہے اللہ مخلوق سے کسی قسم کی احتیاج نہیں رکھتا ۔ اللہ نہ کسی کا بیٹا اور نہ کسی کا باپ ہے ۔ اللہ کا کو ئی خاندان بھی نہیں ہے ان صفات کی رو شنی میں جب ہم مخلوق کا تجزیہ کر تے ہیں تو مخلوق ایک نہیں ہے مخلوق ہمیشہ کثرت سے ہو تی ہیں ۔ مخلوق زندگی کے اعمال و حرکات پو رے کر نے پر کسی نہ کسی احتیاج کی پا بند ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ مخلوق کسی کی اولاد ہو اور یہ بھی ضروری ہے کہ مخلوق کی کو ئی اولاد ہو اور مخلوق کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کا کو ئی خاندان ہو ۔ اللہ کی بیان کر دہ ان پانچ ایجنسیوں میں جب’’ قلندر شعور‘‘ تفکر سے کام لیا جا تا ہے تو یہ راز منکشف ہو تا ہے کہ اللہ کی بیان کر دہ پا نچ صفات میں سے مخلوق ایک صفت میں اللہ کی ذات سے براہ راست تعلق قائم کر سکتی ہے ۔ مخلوق کے لئے یہ ہر گز ممکن نہیں کہ وہ کثرت سے بے نیاز ہو جا ئے ۔ مخلوق اس بات پر بھی مجبور ہے کہ اس کی اولاد ہو یا وہ کسی کی اولاد ہو۔ مخلوق کا خاندان ہو نا بھی ضروری ہے۔

اللہ کی پا نچ صفات میں سے چار صفات میں مخلوق اپنا اختیار استعمال نہیں کر سکتی ۔ صرف ایک حیثیت میں مخلوق اللہ کی صفات سے ہم رشتہ ہو سکتی ہے ۔ وہ صفت یہ ہےکہ تمام وسائل سے ذہن ہٹا کر اپنی ضروریات اور احتیاج کو اللہ کے ساتھ وابستہ کر دیا جا ئے ۔ بندے کے اندر اگر مخلوق کے ساتھ احتیاجی عوامل کا م کر رہے ہیں تو وہ توکل اور بھر وسے کے اعمال سے دور ہے ۔ رو حانیت کے راستے پر چلنے والے مسافر کو اس بات کی مشق کر ائی جاتی ہے کہ زندگی کے تمام تقاضے اور زندگی کی تمام حر کات و سکنات جب شاگر د درو بست پیرو مر شد کے سپرد کر دیتا ہے تو وہ اس کی تمام ضروریات کا کفیل بن جا تا ہے بالکل اسی طر ح جس طر ح ایک دودھ پیتے بچے کے کفیل اس کے ماں باپ ہو تے ہیں جب تک بچہ شعور میں داخل نہیں ہو تا ، ما ں باپ چو بیس گھنٹے اس کی فکر میں مبتلا رہتے ہیں ۔ گھر کا دروازہ نہ کھلے کہ بچہ با ہر نکل جا ئے گا ، سر دی ہے تو بچے نے کپڑے کیوں اتار دئیے ، سر دی لگ جا ئے گی ، کھا نا وقت پر نہیں کھا یا تو ماں باپ پر یشان ہیں بچے نے کھانا وقت پر کیوں نہیں کھا یا ۔ بچہ ضرورت سے زیادہ سو گیا تو اس بات کی فکر کہ کیوں زیادہ سو گیا ۔ نیند کم آئی تو یہ پر یشانی ہے بچہ کم کیوں سویا ۔ ہر شخص جو پیدا ہو ا ہے اور جس کی اولاد ہے اور جس نے اپنے چھو ٹے بہن بھا ئیوں کو دیکھا وہ اچھی طر ح جانتا ہے کہ بچے کی تمام بنیادی ضروریات کے کفیل اس کے ماں باپ ہو تے ہیں ۔ اور یہ کفالت اس طرح پوری کی جاتی ہے کہ جس کا تعلق بچے کے اپنے ذہن سے قطعاً  نہیں ہوتا۔ چونکہ شاگرد مرید یا چیلہ پیرو مرشد(مراد یا شیخ )شیخ کی رُو حانی اولاد ہو تا ہے، اس لئے وہ مرید کی دینی ، دنیا وی ، اور رُوحانی ہر طرح کی کفالت کر تا ہے۔ او رجیسے جیسے کفالت بڑھتی ہے پیرو مرشد کا ذہن مریدکی طرف منتقل ہو تا رہتا ہے جب شیخ مرید کی کفالت کر تا ہے تو مرید کا لاشعور یہ بات جان لیتا ہے کہ جو بندہ میری کفالت کر رہا ہے اس کا کفیل اللہ ہے اور رفتہ رفتہ اس کا ذہن آزاد ہو جاتا ہے اور اس کی تمام ضروریات اور تمام احتیاج اللہ کے ساتھ قائم ہو جاتی ہیں۔


Topics


قلندرشعور

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب میں جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے قلندرکی تعریف  یہ بیان کی ہے کہ " یہ لوگ غرض ، طمع، حرص اورلالچ سے بے نیازہوتے ہیں ۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے میڈیم سے ہی چیزوں کو دیکھتے ، پرکھتے  اوراس کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں ۔کتاب قلندرشعور میں آپ نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ ہم کون سا طرزعمل اختیارکرکے ذہن کی ہر حرکت کے ساتھ اللہ کا احساس قائم کرسکتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں ذہن انسانی ، اللہ کی صفات کا قائم مقام بن جاتاہے ۔ 

روحانی علوم کے متلاشی خواتین وحضرات ، راہ سلوک کے مسافر عرفان حق کے طالب ، سائنسی علوم کے ماہر اورروحانی علوم کے مبتدی طلبا وطالبات کے لئے یہ کتاب مشعل راہ ہے ۔ قلندرشعورٹیکنالوجی عقل وشعور کی پرپیچ وادیوں میں سے گزار کر روحانی سائنس کے طلباء وطالبات کو شعوری دنیا سے اس پار(ماورائی عالم ) میں داخل کردیتی ہے ۔