Topics

دماغی خلیوں کی ٹوٹ پھو ٹ

آدمی کی بد قسمتی یہ ہے کہ اس نے اللہ کے عطا کئے ہو ئے علوم کو خود ساختہ اور غلط بنیادوں پر  پر کھا اور ان سے انکاری ہو گیا ۔اللہ نے ہر علم کی بنیاد رو شنی کو قرار دیا ہے۔ آدمی کو یہ چا ہئے تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ رو شنیوں کی قسمیں اور رو شنیوں کا طرزعمل معلوم کر تا لیکن اس نے کبھی اس طر ف توجہ نہیں کی اور یہ چیز ہمیشہ پردے میں رہی ۔آدمی نے اس پر دے میں جھانکنے کی کوشش اس لئے نہیں کی کہ یا تو اس کے سامنے رو شنیوں کا کو ئی پر دہ موجود نہیں تھا یا اس نے کبھی رو شنیوں کے پر دے کی طر ف کبھی توجہ ہی نہیں کی۔ وہ یہ قاعدے معلوم کر نے کی طر ف متوجہ ہی نہیں ہوا جو رو شنیوں کے خلط ملط سے تعلق رکھتے ہیں ۔ اگر آدمی یہ طرز عمل اختیار کر تا تو اس کے دماغی خلیوں کی ٹوٹ پھوٹ کم سے کم ہو سکتی تھی ۔ اس حالت میں وہ زیادہ سے زیادہ یقین کی طر ف قدم اٹھا تا اور شکوک اسے اتنا پر یشان نہ کرتے جتناکہ اب اُسے پر یشان کئے ہو ئےہیں۔ اس کی تحر یکات میں جو عملی رکاوٹیں واقع ہو ئی ہیں وہ کم سے کم ہو تیں لیکن ایسا نہیں ہوا اس نے رو شنی کی قسمیں معلوم نہیں کیں، نہ رو شنیوں کی طبیعت کا حال معلوم کر نے کی کوشش کی ۔ وہ تو یہ بھی نہیں جا نتا کہ رو شنیاں طبیعت اور ما ہیت رکھتی ہیں اور روشنیوں میں رحجانات بھی ہو تے ہیں ۔ اسے یہ بھی نہیں معلوم کہ رو شنیاں ہی اس کی زندگی ہیں اور اس کی حفاظت کر تی ہیں ۔ وہ صرف مٹی کے پتلے سے واقف ہے۔ ایسے پتلے سے جس کے اندر اس کی اپنی کو ئی زندگی موجود نہیں ہے۔ جس کو اللہ نے سڑی ہو ئی مٹی سے بنایا ہے اس کے اندر اپنی کو ئی ذاتی حقیقت موجود نہیں ہے ۔ حقیقت جو اللہ نے رُو ح   کی شکل میں پھو نکی ہے ۔ 

رو شنیوں کے عمل سے نا واقفیت اللہ کے اس بیان سے منحرف کر تی ہے- جہاں تک انحراف واقع ہو تا ہے وہاں تک وہم اور شک بڑھتا ہے ایمان اور یقین ٹوٹ جا تے ہیں ۔

ماہرِ رو حانیت یقین کی تعریف اس طر ح کر تے ہیں :

’’یقین وہ عقیدہ ہے جس میں شک نہ ہو ۔‘‘

ارادہ یا یقین کی کمزوری دراصل شک کی وجہ سے جنم لیتی ہے جب تک خیالات میں تذبذب رہے گا ،یقین میں کبھی بھی پختگی نہیں آئے گی ۔ مظاہر اپنے وجود کے لئے یقین کے پا بند ہیں۔ کیوں کہ کو ئی خیال یقین کی رو شنیاں حاصل کر کے مظہر بنتا ہے ۔ 


Topics


قلندرشعور

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب میں جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے قلندرکی تعریف  یہ بیان کی ہے کہ " یہ لوگ غرض ، طمع، حرص اورلالچ سے بے نیازہوتے ہیں ۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے میڈیم سے ہی چیزوں کو دیکھتے ، پرکھتے  اوراس کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں ۔کتاب قلندرشعور میں آپ نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ ہم کون سا طرزعمل اختیارکرکے ذہن کی ہر حرکت کے ساتھ اللہ کا احساس قائم کرسکتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں ذہن انسانی ، اللہ کی صفات کا قائم مقام بن جاتاہے ۔ 

روحانی علوم کے متلاشی خواتین وحضرات ، راہ سلوک کے مسافر عرفان حق کے طالب ، سائنسی علوم کے ماہر اورروحانی علوم کے مبتدی طلبا وطالبات کے لئے یہ کتاب مشعل راہ ہے ۔ قلندرشعورٹیکنالوجی عقل وشعور کی پرپیچ وادیوں میں سے گزار کر روحانی سائنس کے طلباء وطالبات کو شعوری دنیا سے اس پار(ماورائی عالم ) میں داخل کردیتی ہے ۔