Topics
انسان دو تقاضوں سے مرکب اور محرک ہے ۔ ایک تقاضہ جبلی اوردو سرا فطری ۔ جبلی تقاضے پر ہم با اختیار ہیں اور فطری تقاضے پر ہمیں کسی حد تک تو اختیار ہے مگر اس ارادے کو کلیتاً رد کر نے پر اختیار نہیں رکھتے۔ یہ ایک نظام جو جبلت اور فطرت پر قائم ہے۔ جبلت میں ہر نوع اور نوع کا فرد ایک دو سرے سے محسوساتی رشتہ رکھتا ہے ۔ کون نہیں جا نتا کہ جس طرح ایک ماں اپنے بچے سے پیار کر تی ہے اور اپنے بچے کی تر بیت کر کے انہیں پروان چڑھا تی ہے، اسی طرح ایک بلی بھی اپنے بچے سے محبت کر تی ہے، اپنے بچے کی تر بیت کر تی ہے اور گرم و سرد سے اپنے بچے کی حفا ظت کر تی ہے ۔مرغی جو زمین پر چلنے والا ایک پر ندہ ہے وہ بیک و قت اپنے کئی کئی بچوں کو اپنے ساتھ رکھتی ہے اور ہر طر ح سے ان کی حفا ظت اور تر بیت کر تی ہے ۔ماں کو ئی بھی ہو وہ مرغی ہو ، کبو تر ہو ، شیرنی ہو ، بکری ہو ، مامتا کا جذبہ تمام نوعوں میں مشترک ہے ۔ جبلت میں کو ئی بھی فر د اپنے ارادے اور اختیار سے تبدیلی کر سکتا ہے لیکن فطرت میں کسی نوع کا کو ئی فرد تبدیلی نہیں کر سکتا ۔ پیدا ہو نا ایک فطری عمل ہے ۔ پیدا ئش کے بعد بھوک پیاس کا تقاضہ بھی ایک فطری عمل ہے ۔ اس طر ح کو ئی آدمی کو ئی فرد خواہ زمین کے کسی بھی خطے پر موجود ہو ۔ اس بات پر اختیار نہیں رکھتا کہ وہ ساری زندگی کچھ نہ کھا ئے ۔ ساری زندگی سو تا رہے یا جاگتا رہے ۔ ہر آدمی یا ہر نوع کا ہر فرد جس طر ح کھانا کھا نے اور پا نی پینے پر مجبور ہے اس تو جیہ کے پیش نظر یہ بات منکشف ہو تی ہے کہ افراد کا ئنات میں ہر فرد جبلت اور فطرت کے اعتبار سے آپس میں ایک ذہنی ارتباط رکھتا ہے ۔ اور ایک مشترک رشتے میں منسلک ہے ۔ جب ہم فطرت اور جبلت کا گہرائی میں مطالعہ کر تے ہیں تو ہمیں ایک نیا شعور حاصل ہو تا ہے یہ شعور ا نسان اورجنات کے علاوہ کسی دوسری نوع کو حاصل نہیں ہے جب انسان کے اندر سوچ وتفکر کا یہ شعور متحرک ہو جا تا ہے تو اس کی نظر، اس کی فہم ، اس کا ادراک اور اس کی بصیرت اسے لازماً اس طر ف متوجہ کر تی ہے با اختیار انسان مجبور محض بھی ہے ۔ اور یہ مجبور ہو نا اس بات کی دلیل ہے کہ ہماری تمام زندگی کا کنڑول کسی ایسی ہستی کے ہاتھ میں ہے جس کا اختیار کا ئنات کے اوپر ہے ، مذہب اس ہستی کے مختلف نام رکھتے ہیں ۔
اسلام اس ہستی کو اللہ کے نام سے متعارف کر واتا ہے ۔ عیسائیت اس عظیم اور دبدبے والی ہستی کو گاڈ کا نام دیتی ہے ۔ ہندو مت اس بزرگ وبر تر ہستی کو بھگوان کہتا ہے ۔ کو ئی یزدان اور کو ئی ایلیا کہہ کر پکارتا ہے ۔ مختصر یہ ہے کہ ہر مذہب اس عظیم ہستی سے متعارف کرانے کا کوئی نہ کو ئی اسلوب ضرور رکھتا ہے ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب میں جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے قلندرکی تعریف یہ بیان کی ہے کہ " یہ لوگ غرض ، طمع، حرص اورلالچ سے بے نیازہوتے ہیں ۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے میڈیم سے ہی چیزوں کو دیکھتے ، پرکھتے اوراس کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں ۔کتاب قلندرشعور میں آپ نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ ہم کون سا طرزعمل اختیارکرکے ذہن کی ہر حرکت کے ساتھ اللہ کا احساس قائم کرسکتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں ذہن انسانی ، اللہ کی صفات کا قائم مقام بن جاتاہے ۔
روحانی علوم کے متلاشی خواتین وحضرات ، راہ سلوک
کے مسافر عرفان حق کے طالب ، سائنسی علوم کے ماہر اورروحانی علوم کے مبتدی طلبا
وطالبات کے لئے یہ کتاب مشعل راہ ہے ۔ قلندرشعورٹیکنالوجی عقل وشعور کی پرپیچ
وادیوں میں سے گزار کر روحانی سائنس کے طلباء وطالبات کو شعوری دنیا سے اس پار(ماورائی عالم ) میں داخل
کردیتی ہے ۔