Topics

جنس کشش کا قانون

جنس کشش کا قانون

 عورت کے اندر مر د چھپا ہو ا ہے اور مرد کے ا ندر عورت چھپی ہو ئی ہے ۔ اگر آدم کے اندر حوّا نہ ہو تی تو حوّاکی پیدا ئش ممکن نہیں تھی ۔ دوسری مثال حوّاکے اندر سے آدم کی پیدا ئش ہے جس کو آسمانی کتا بوں نے’’عیسیٰ ‘‘کا نام دیا ہے ۔اس طرح ہر فر د دو پر ت سے مر کب ہے ۔ ایک پر ت ظا ہر اور غالب رہتا ہے دو سرا پر ت مغلوب اور چھپا ہوا رہتا ہے ۔ مرد ہو یا عورت دونوں دو(۲) دو رخوں سے مر کب ہیں ایک ظاہری رخ اور ایک با طنی رخ ۔ عورت میں ظاہررخ عورت کے خدوخال میں جلوہ نما ہو کر ہمیں نظر آتا ہے۔ اور با طنی رخ وہ ہے جو نظر نہیں آتا۔ اسی طر ح مر د کا ظا ہری رخ مر د کے خدوخال بن کر ہمارے سامنےآتاہے اور با طن رخ وہ ہے جو مخفی رہتا ہے ۔ 

مفہوم یہ ہے کہ مر د بحیثیت مرد کے جو نظر آتا ہے وہ اس کا ظا ہری رخ ہے ۔ اور عورت بحیثیت عورت جونظر آتی ہے وہ اس کا ظا ہری رخ ہے۔ مرد کے ظا ہری رخ کا متضاد با طن رخ  ''عورت ''  اس کے ساتھ لپٹا ہوا ہے اور عورت کے ظا ہر رخ کے ساتھ اس کا متضاد با طن رخ  ''مرد '' لپٹا ہوا ہے ۔افزائش نسل او ر جنسی کشش کا قانون بھی ان ہی دو رخوں پر قائم ہے ۔ عورت کے اندر با طن'' رخ '' مر د چو نکہ مغلوب ہے اور غالب خدوخال میں نمو دار ہو کر مظہر نہیں بنا ہے اس لئے وہ غالب اور مکمل رخ کو اپنا نا چا ہتا ہے اوراس کے اندر جذب ہو نے کے لئے بے قرار رہتا ہے ، اس طر ح مر د کے اندر چھپا ہوا پر ت عورت چو نکہ مغلوب اور نہ مکمل ہے اس لئے وہ بھی عورت کے ظا ہری رخ سے ہم آغوش ہو کر اپنی تکمیل کر نا چا ہتا ہے ۔ کہنا یہ ہے کہ جنسی کشش اس عورت یا مر د میں نہیں ہو تی جو ہماری نظر وں کے سامنے ہے بلکہ عورت کے اندر چھپا ہوا رخ اس مر د سے ہم آغوش ہو کر اپنی تکمیل چا ہتا ہے جو ہمیں جیتی جاگتی شکل میں نظر آتی ہے ۔ اسی کو عرف عام میں ’’جنسی جذبہ ‘‘کہتے ہیں ۔

جنسی تبدیلی کے واقعات اکثر و بیشتر ہمارے مشاہدے میں آتے رہتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ با طنی رخ کی تحر یکات اتنی زیادہ سریع السیر اور غالب ہو جا تی ہیں کہ ظا ہری رخ کی اپنی تحر یکات بظاہر معطل اور معدوم ہو جا تی ہے ۔یہ تبدیلی اس طرح واقع ہو تی ہے کہ مر د کے اندر عورت کا با طن رخ غالب ہو جا تا ہے اور ظا ہری رخ مرد کی تحر یکات مغلوب ہو جا تی ہیں اور نتیجے میں کو ئی مرد عورت بن جا تا ہے ،اور اسی طرح کسی عورت میں ظاہری رخ کی تحر یکات مغلوب ہو جا تی ہے تو وہ مر د بن جا تی ہے ۔ 


Topics


قلندرشعور

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب میں جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے قلندرکی تعریف  یہ بیان کی ہے کہ " یہ لوگ غرض ، طمع، حرص اورلالچ سے بے نیازہوتے ہیں ۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے میڈیم سے ہی چیزوں کو دیکھتے ، پرکھتے  اوراس کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں ۔کتاب قلندرشعور میں آپ نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ ہم کون سا طرزعمل اختیارکرکے ذہن کی ہر حرکت کے ساتھ اللہ کا احساس قائم کرسکتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں ذہن انسانی ، اللہ کی صفات کا قائم مقام بن جاتاہے ۔ 

روحانی علوم کے متلاشی خواتین وحضرات ، راہ سلوک کے مسافر عرفان حق کے طالب ، سائنسی علوم کے ماہر اورروحانی علوم کے مبتدی طلبا وطالبات کے لئے یہ کتاب مشعل راہ ہے ۔ قلندرشعورٹیکنالوجی عقل وشعور کی پرپیچ وادیوں میں سے گزار کر روحانی سائنس کے طلباء وطالبات کو شعوری دنیا سے اس پار(ماورائی عالم ) میں داخل کردیتی ہے ۔