Topics

مراقبہ کی قسمیں

ماوارائی دنیا کو دیکھنے کا عمل ابتدائی درجوں میں چا ر طر یقوں پر قائم ہے ۔

رُو ح   حیوانی دو نقطوں سے مر کب ہے ۔ ایک نقطے کا نام نفس ہے دوسرے نقطے کا نام قلب ہے ۔ شعور انسانی جب تک نفس کے اندر دنیا کا مشاہدہ کر تا ہے یا دنیا کو دیکھتا ہے تو وہ زمان مکاں میں پا بند رہتے ہو ئے بیداری میں دیکھتا ہے اس سے تر قی کر کے رُو ح   حیوانی سے اوپر قلب میں دیکھتا ہے تو ٹا ئم اسپیس کی گر فت ٹو ٹنے لگتی ہے اور ما دی دنیا اورغیب کی دنیا دو نوں ایک ساتھ اس کی نظروں کے سامنے آجا تی ہے۔ لطیفہ نفسی اور لطیفہ قلبی کی ان دو سیڑھیوں سے گزر کر جب آد می تیسری سیڑھی پر قدم رکھتا ہے تو لطیفہ رو حی میں دیکھتا ہے یہ دیکھنا مراقبے میں دیکھنا ہے ۔

مراقبے کی بہت سی قسمیں ہیں مراقبہ کی ایک قسم یہ ہے کہ آدمی آنکھیں بند کر کے بیٹھ جا تا ہے اسے ذہنی یکسوئی نصیب ہو جا تی ہے کو ئی چیز اس کی نظروں کے سامنے آتی ہے لیکن بندہ دیکھی ہو ئی چیز کو معنی اور مفہوم نہیں پہنا سکتا ۔ دو سری بات یہ ہو تی ہے جس وقت کو ئی چیز نظر آتی ہے اس وقت شعور اور حواس معطل ہو جا تے ہیں اور جب اس کیفیت سے نکلتا ہے تو اس کے ذہن پر یہ تا ثر قائم ہو تا ہے کہ اس نے کو ئی چیز دیکھی ہے ۔ کیا دیکھی ہے کس طر ح دیکھی ہے یہ بات اس کے حا فظے پر کسی طر ح نقش نہیں ہو تی ۔ اس کو رُو حانیت  میں بیداری میں ’’خواب دیکھنا ‘‘ کہتے ہیں ۔ اور بیداری میں خواب دیکھنے کا اصطلا حی نام ’’غنود ‘‘ ہے ۔ اس کہ بعد دوسرا اسٹیچ یہ ہے کہ آدمی نے مراقبہ میں ہوش و حواس کو قائم رکھتے ہوئے کو ئی چیز دیکھی ۔ اس کو ایک جھٹکا سا لگااور یہ بات ذہن میں آئی کہ میرا وجود موجود ہے ۔وجود کی مو جودگی کی ساتھ دیکھی ہو ئی چیز کچھ یا د رہی کچھ بھول میں پڑ گئی ۔ اس کیفیت کو رُو حانی  اصطلاح میں ’’ورُود ‘‘ کہا جا تا ہے ۔ بیداری کے حواس میں اس طر ح کسی چیز کا دیکھنا کہ وہ یاد بھی رہے اور اس کے معنی اور مفہوم بھی ذہن نشین ہو جا ئیں ۔ جسمانی وجود کا احساس بھی با قی رہے اور ٹائم اسپیس کی گر فت بھی ٹوٹ جا ئے اس کیفیت کا نام مراقبہ ہے ۔ 


Topics


قلندرشعور

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب میں جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے قلندرکی تعریف  یہ بیان کی ہے کہ " یہ لوگ غرض ، طمع، حرص اورلالچ سے بے نیازہوتے ہیں ۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے میڈیم سے ہی چیزوں کو دیکھتے ، پرکھتے  اوراس کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں ۔کتاب قلندرشعور میں آپ نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ ہم کون سا طرزعمل اختیارکرکے ذہن کی ہر حرکت کے ساتھ اللہ کا احساس قائم کرسکتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں ذہن انسانی ، اللہ کی صفات کا قائم مقام بن جاتاہے ۔ 

روحانی علوم کے متلاشی خواتین وحضرات ، راہ سلوک کے مسافر عرفان حق کے طالب ، سائنسی علوم کے ماہر اورروحانی علوم کے مبتدی طلبا وطالبات کے لئے یہ کتاب مشعل راہ ہے ۔ قلندرشعورٹیکنالوجی عقل وشعور کی پرپیچ وادیوں میں سے گزار کر روحانی سائنس کے طلباء وطالبات کو شعوری دنیا سے اس پار(ماورائی عالم ) میں داخل کردیتی ہے ۔