Topics
کائنات میں ہر موجود شئے لہروں کے تا نے بانے پر قائم ہے ۔ اور یہ لہریں نور کے اوپر قائم ہیں ۔ اللہ کی زبان میں زمین آسمان اللہ کا نور ہیں تخلیق کی ایک حیثیت نورانی ہے اور تخلیق کی دو سری حیثیت رو شنی ، نفس ، جان یا نقطہ ہے ان لہروں یا تخلیق کے اندر نورانی وصف کو تلاش کر نے کیلئے اللہ کے دوستوں نے انسانی شعور کی مناسبت سے قاعدے بنا ئے ہیں ۔ اور اس ایک نقطے کو چھ پر تقسیم کر دیا تا کہ ایک مبتدی سالک آسانی کے ساتھ سمجھ سکے ۔ اس نقطے کے چھ حصوں کے نام رُو حانیت میں لطا ئف ستہ یا چھ لطیفے ہیں ۔
پہلا لطیفہ جس کو اخفی کا نام دیا گیا ہے ۔ہر انسان کے اند ر نقطہ واحدہ ہے یہی وہ نقطہ ہے جو اللہ کا گھر ہے ۔ جس میں اللہ بستا ہے جس نقطے کے اوپر براہ راست اللہ کی تجلیات کا نزول ہو تا ہے ۔ یہی وہ نقطہ ہے جس کے داخل ہو نے سے انسان کا ئنات کے اندر جا ری و ساری نظام میں داخل ہو جا تا ہے اور کا ئنات کے اوپر اس کی حکومت قائم ہو جا تی ہے۔ یہی وہ نقطہ ہے جس میں داخل ہو نے کے بعد اللہ کا یہ ارشاد سمجھ میں آتا ہے کہ ہم نے تمہا رے لئے آسمانوں میں زمین میں جو کچھ ہے سب کا سب مسخر کر دیا ہے یعنی آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ سب کا سب تمہا را محکوم ہے تم اس کے حاکم ہو اور اس ارشاد کی تفصیل یہ سامنے آتی ہے کہ ہم نے تمہا رے لئے سورج کو مسخر کر دیا ،چا ند کو مسخر کر دیا ، اللہ نے مخلوق کی خدمت کے لئے ایک ڈیوٹی تفویض کی ہے ۔ یہ بات ان کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ اللہ کی مخلوق کی خدمت بجا لا ئیں ۔ چاند ہو ، سورج ہو ، ستارے ہوں ، ہوا ہو ، پا نی ہو ، گیس ہو ، درخت ہوں ، حیوانات ہوں، نبا تات ہوں ، جمادات ہوں ، سب انسان کی خدمت گزاری میں مصروف ہیں ۔ یہ مسخر ہونا "قلندر شعور "کی دانست میں مسخر ہو نا نہیں ہے ۔
اللہ نے ایک قانون بنا دیا اس قانون پر عمل در آمد ہو رہا ہے ۔ ہر چیز انسان کی خدمت میں مصروف عمل ہے ۔ مسخر ہونا یا کسی چیز پر حاکمیت قائم ہو نا یہ معنی رکھتا ہے کہ اس چیز پر تصرف کیا جا سکے حالانکہ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ نو ع انسانی چا ند اور سورج کےتصرف میں زندگی بسر کر رہی ہے ۔ اگر چا ند اور سو رج اپنا تصرف ختم کر سکتے تو زمین کا وجود قائم نہیں رہتا ۔ مثلاً یہ کہ ہم دھو پ کے محتاج ہیں غذاؤں میں شیرنی پیدا ہونے کے لئے ہم اس بات کے محتاج ہیں کہ چاند ہماری خدمت کر ے ۔ لیکن ہمیں چا ند اور سورج پر کو ئی حاکمیت اور تصرف حاصل نہیں ہے ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب میں جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے قلندرکی تعریف یہ بیان کی ہے کہ " یہ لوگ غرض ، طمع، حرص اورلالچ سے بے نیازہوتے ہیں ۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے میڈیم سے ہی چیزوں کو دیکھتے ، پرکھتے اوراس کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں ۔کتاب قلندرشعور میں آپ نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ ہم کون سا طرزعمل اختیارکرکے ذہن کی ہر حرکت کے ساتھ اللہ کا احساس قائم کرسکتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں ذہن انسانی ، اللہ کی صفات کا قائم مقام بن جاتاہے ۔
روحانی علوم کے متلاشی خواتین وحضرات ، راہ سلوک
کے مسافر عرفان حق کے طالب ، سائنسی علوم کے ماہر اورروحانی علوم کے مبتدی طلبا
وطالبات کے لئے یہ کتاب مشعل راہ ہے ۔ قلندرشعورٹیکنالوجی عقل وشعور کی پرپیچ
وادیوں میں سے گزار کر روحانی سائنس کے طلباء وطالبات کو شعوری دنیا سے اس پار(ماورائی عالم ) میں داخل
کردیتی ہے ۔