Topics
حضرت بابا تا ج الدین نا گپو ری ؒ کے نواسے اور قلندرشعور کے با نی قلندر بابا اولیاء ؒ اپنی کتاب تذکرہ تا ج الدین بابا ؒ میں "شیر کی عقیدت کا واقعہ" اور اس واقعہ کی علمی تو جیہ بیان کر تے ہو ئے فر ما تے ہیں کہ :
ایک دن نانا تا ج الدین نا گپو ری ؒ واکی شریف کے جنگل (بھا رت )میں چند لوگوں کے ساتھ پہاڑ پر چڑ ھتے چلے گئے ۔ نانا ؒ مسکر ا کر کہنے لگے ۔’’ میاں جس کو شیر کا ڈر ہو وہ چلا جا ئے ۔ میں تو یہاں ذرا سی دیر آرام کر وں گا ،خیال ہے کہ شیر ضرور آئے گا ۔جتنی دیر قیام کر ے اس کی مر ضی ۔ تم لوگ جا ؤ کھا ؤ پیو ۔ اور مزے کر و۔‘‘ بعض لوگ اِدھر اُدھر چھپ گئے اورزیادہ چلے گئے ۔ گرمی کا موسم تھا درختوں کا سایہ اور ٹھنڈی ہواخمار کا طو فان اٹھا رہی تھی نانا اب دبیز گھا س پر لیٹ چکے تھے ۔
آنکھیں بند تھیں فضا ء میں بالکل سنا ٹا چھایا ہوا تھا ۔ چند منٹ گزرے ہی تھے کہ جنگل بھیانک محسوس ہونے لگا ۔ اس کے بعد کچھ وقفہ ایسا گزر گیا جیسے شدید انتظار ہو ۔ یہ انتظار کسی سادھو ، کسی جو گی ، کسی اوتار کسی ولی یا کسی انسان کا نہیں تھا بلکہ ایک درندہ کا تھا جو کم از کم میرے ذہن میں قدم بہ قدم حر کت کر رہا تھا ۔ یکایک نانا ؒ کی طرف نگاہیں متوجہ ہو گئیں ۔ان کے پیروں کی طر ف ایک طو یل القامت شیر ڈھلا ن سے اوپر چڑھ رہا تھا ۔ بڑی آہستہ خر امی سے بڑے ادب کے ساتھ شیر نیم وا آنکھوں سے نانا تا ج الدین ؒ کی طر ف دیکھ رہا تھا۔ذرا دیر میں وہ پیروں کے بالکل قریب آگیا ۔ ناناؒ گہری نیند میں بے خبر تھے ۔ شیر زبان سے تلوے چھو رہا تھا چند منٹ بعد اس کی آنکھیں مستانہ واری سے بند ہو گئیں اس نے اپنا سر زمین پر رکھ دیا ۔
نانا تا ج الدین ؒ ابھی تک سو رہے تھے۔ شیر نے ذرا ہمت کر کے تلوے چاٹنا شروع کردیے اس حر کت سے نانا کی آنکھ کھل گئی اٹھ کر بیٹھ گئے ۔ شیر کے سر پر ہا تھ پھیرا کہنے لگے ۔ ’’ تو آگیا ۔ اب تیری صحت بالکل ٹھیک ہے میں تجھے تندرست دیکھ کر بہت خوش ہوا ۔ اچھا، اب جا ؤ ‘‘ ۔ شیر نے بڑی ممنو نیت سے دم ہلائی اور چلا گیا۔
میں نے ان واقعات پر بڑا غور کیا ۔یہ بات کسی کو معلوم نہیں کہ شیر پہلے کبھی ان کے پا س آیا تھا ۔ مجبو راًاس امر کا یقین کر نا پڑتا ہے نانا اور شیر پہلے سے ذہنی طور پر رو شنا س تھے ۔رو شناسی کا ایک ہی طر یقہ ہو سکتا ہے۔ انا کی جو لہریں نانا اور شیر کے درمیان ردوبدل ہو تی تھیں وہ آپس کی ملاقات کا با عث بنتی تھیں ۔ عارفین میں کشف کی روش عام طور پر یہی ہو تی ہے لیکن اس واقعے سے معلوم ہو ا کہ جا نوروں میں بھی کشف اس طرح ہو تا ہے کشف کے معاملے میں انسان اور دو سری مخلوق یکساں ہے ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب میں جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے قلندرکی تعریف یہ بیان کی ہے کہ " یہ لوگ غرض ، طمع، حرص اورلالچ سے بے نیازہوتے ہیں ۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے میڈیم سے ہی چیزوں کو دیکھتے ، پرکھتے اوراس کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں ۔کتاب قلندرشعور میں آپ نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ ہم کون سا طرزعمل اختیارکرکے ذہن کی ہر حرکت کے ساتھ اللہ کا احساس قائم کرسکتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں ذہن انسانی ، اللہ کی صفات کا قائم مقام بن جاتاہے ۔
روحانی علوم کے متلاشی خواتین وحضرات ، راہ سلوک
کے مسافر عرفان حق کے طالب ، سائنسی علوم کے ماہر اورروحانی علوم کے مبتدی طلبا
وطالبات کے لئے یہ کتاب مشعل راہ ہے ۔ قلندرشعورٹیکنالوجی عقل وشعور کی پرپیچ
وادیوں میں سے گزار کر روحانی سائنس کے طلباء وطالبات کو شعوری دنیا سے اس پار(ماورائی عالم ) میں داخل
کردیتی ہے ۔