Topics
ایک دیو پیکر جن نے کہا ’’آپ کے دربار برخاست کر نے سے پہلے ہی میں تخت لا سکتا ہوں۔ ‘‘جن کا دعویٰ سن کر ایک انسان نے جس کے پاس آسمانی کتاب کا علم تھا یہ کہا ’’اس سے پہلے کہ آپ کی پلک جھپکیں یہ تخت میں آپ کی خدمت پیش کر سکتا ہوں ۔ ‘‘
سلیمان ؑ نے رخ پھیر کر دیکھا تو دربار میں ملکہ سباء کا تخت موجود تھا ۔تخت کے دربار میں آچکنے کے بعد سلیمانؑ نے حکم دیا اس تخت کی ہیئت میں کچھ تبدیلی کر دی جا ئے میں یہ دیکھنا چا ہتا ہوں کہ ملکہ سباء یہ دیکھ کر حقیقت کی راہ پا تی ہیں یا نہیں ۔
کچھ عرصے بعد ملکہ سبا ءحضرت سلیمان ؑ کی خدمت میں بار یا ب ہو گئیں جب دربار میں حاضر ہو ئیں تو ان سے پو چھا گیا کیا تیرا تخت ایسا ہی ہے ؟
عقلمند ملکہ نے جواب دیا ۔’’ایسا معلوم ہو تاہے ’’گو یا وہی ہے ۔ملکہ سبا ءنے اس کے ساتھ ہی یہ کہا ‘‘۔مجھ کو آپ کی بے نظیر اور عدیم المثال قوت کا پہلے سے علم ہو چکا ہے ۔ اس لئے مطیع اور فر ماں بردار بن کر حاضر خدمت ہو ئی ہوں اور اب تخت کا یہ محیرا لعقول معاملہ تو آپ کی لا ثانی طا قت کا تا زہ مظاہرہ ہے اور ہماری اطا عت کے لئے مز ید تا زیا نہ۔
اس لئے ہم آپ سے فر ما نبرداری کا اظہار کر تے ہیں ۔
سلیمانؑ نے جنات اور انسان انجینئروں سے ایک عالی شان محل تعمیر کر وایا تھا اس میں داخل ہو نے کے لئے سامنے جو صحن پڑتا تھا اس میں ایک بڑاحوض کھدوا کر پا نی سے لبریز کر دیا تھا ۔ اور پھر شفاف آبگینوں اور بلور کے ٹکڑوں سے ایسا نفیس فرش بنا یا تھا دیکھنے والے کی نگا ہ دھو کہ کھا کر یقین کر لیتی تھی کہ صحن میں شفاف پانی بہہ رہا ہے ۔
ملکہ سبا ءسے یہ کہا گیا کہ وہ قصر شاہی میں قیام کر ے ۔ ملکہ محل کے پاس پہنچی تو شفاف پانی بہتا ہوا پا یا ۔ یہ دیکھ کر پا نی میں اتر نے کے لئے کپڑوں کو پنڈلیوں سے اوپر اٹھا یا تو سلیمان ؑ نے فر ما یا ۔’’اس کی ضرورت نہیں ہے یہ پا نی نہیں ہے سارا محل اور اس کا خوبصورت صحن چمکتے ہو ئے آبگینوں سے بنایا گیا ہے۔‘‘
شرم سے ملکہ کی آنکھیں نیچی ہو گئیں ۔ اس کی فہم اور دانش مندی پر یہ ایک ز بر دست چو ٹ تھی اس کے لا شعور میں چھپی ہو ئی نخوت اور بڑائی نے ندامت سے سر جھکا لیا ۔ ملکہ نے ایک نادم اور شرمسار ا نسان کی طرح سلیمان کے سامنے با رگا ہ الہی میں اقرار کیا ۔
اے پر وردگار! آج ماسوا اللہ کی پرستش کر کے میں نے اپنے نفس پر بڑا ظلم کیا ہے مگر اب میں سلیمان کے ساتھ ہو کر صرف ایک خدا پر ایمان لاتی ہوں ۔جو تمام کا ئنات کا پروردگار ہے ۔‘‘
ہزارہا مثالوں سے چند مثالیں جو پیش کی گئی ہیں ان سے یہ بات پو ری طر ح ثابت ہو جاتی ہے کہ انسان کی طر ح دو سری تمام مخلوق یعنی پرندے ، چرندے ، درندے ، جنات اور حشرت الارض بھی عقل و شعور رکھتے ہیں ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب میں جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے قلندرکی تعریف یہ بیان کی ہے کہ " یہ لوگ غرض ، طمع، حرص اورلالچ سے بے نیازہوتے ہیں ۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے میڈیم سے ہی چیزوں کو دیکھتے ، پرکھتے اوراس کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں ۔کتاب قلندرشعور میں آپ نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ ہم کون سا طرزعمل اختیارکرکے ذہن کی ہر حرکت کے ساتھ اللہ کا احساس قائم کرسکتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں ذہن انسانی ، اللہ کی صفات کا قائم مقام بن جاتاہے ۔
روحانی علوم کے متلاشی خواتین وحضرات ، راہ سلوک
کے مسافر عرفان حق کے طالب ، سائنسی علوم کے ماہر اورروحانی علوم کے مبتدی طلبا
وطالبات کے لئے یہ کتاب مشعل راہ ہے ۔ قلندرشعورٹیکنالوجی عقل وشعور کی پرپیچ
وادیوں میں سے گزار کر روحانی سائنس کے طلباء وطالبات کو شعوری دنیا سے اس پار(ماورائی عالم ) میں داخل
کردیتی ہے ۔