Topics

سات چور

شیخ ؒ کو بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ یہ عجیب بات ہے کہ اللہ ہر وقت اپنا احسان جتاتا رہتا ہے کبھی کہتا ہے میں کھلاتا ہوں ،میں پلاتا ہوں ، اور کبھی کہتا ہے میں رزق فراہم کرتا ہوں ، اگر ہم کھانا نہ کھائیں تو کو ئی طاقت ہمیں کھانے پر مجبور نہیں کر سکتی ۔ یہ سوچ کر کھانا  کھانا چھوڑ دیا ۔ جب بیوی بچوں نے زیادہ پریشان کیا تو گھر چھوڑ کر ایک پرانے قبرستان میں وہ جا پہنچے شام ہو ئی تو ایک صاحب اپنی منت پوری کر نے کے لئے قبر ستان میں موجود ایک مزار پر حاضر ہو ئے ۔ فا تحہ کے بعد انہوں نے شیخ کو بھی تبرک دیا ۔ شیخ کے انکار او ر اس شخص کے اصرار نے عجیب صورت حال پیدا کر دی وہ شخص یہ سمجھ کر کہ شیخ کو ئی دیوانے ہیں ایک پڑیا میں کچھ لڈو لپٹیے اور ایک جھاڑی کے نیچے رکھ دئیے کہ جب اس شخص کے حواس درست ہوں گے تو کھا لے گا ۔ آدھی سے زیادہ رات گزر گئی توقبر ستان میں چور داخل ہو ئے انہوں نے چو ری شدہ مال کی تقسیم شروع کی تو شیخ اُٹھ بیٹھے ۔ چوروں کے کان کھڑے ہوئے اور آپس میں یہ طے پا یا کہ یہ شخص کو ئی مخبر ہے انہوں نے جلدی جلدی اپنا مال سمیٹ کر پوٹلی میں باندھ لیا اور شیخ پر سوالات کی بو چھا ڑکر دی ۔ شیخ کو ئی معقول جواب نہ دے سکے ۔ اس تکرار میں چو روں میں سے ایک چور کی نظر جھا ڑی کے نیچے رکھی ہو ئی پُڑیا  پرپڑی ۔ پُڑیا کو کھول کر دیکھا تو اس میں سات لڈو تھے اور چور بھی اتفاق سے سات تھے ۔ چوروں کا سردار بولا کہ یہ شخص بھی کو ئی چور ہے اور بہت چا لاک چور ہے ۔ اس نے لڈوؤں میں ذہر ملا دیا تا کہ ہم کھا کر مر جا ئیں اور یہ ہمارے مال پرقبضہ کر لے ۔ سردار نے کہا یہ سارے لڈو اسے کھلا دیے جا ئیں تاکہ اس کی سازش خود اس کو ہلاک کر دے۔ دو آدمیوں نے دونوں پیر پکڑے ۔ دو آدمیوں نے دو نوں ہا تھ پکڑے ایک آدمی نے سر پکڑا اور ایک آدمی سینے پر بیٹھ گیا ااور ایک آدمی نے اس کا منہ کھول کر اس کے منہ میں لڈو ڈال دیا تو جب شیخ نے اس حال میں بھی لڈو کھانا نہ چا ہا تواس شخص نے زور زور سے تھپڑ رسید کیے اور انگلی کے ذریعے لڈو حلق میں اتار دیا ۔ اس  جبرو تشدد کے دوران ساتواں لڈو شیخ کے پیٹ میں پہنچ گیا ۔ یہ کا رنامہ انجام دینے کے بعد ساتوں چور سر پر پیر رکھ کربھا گئے ۔ 

شیخ اٹھے اور بہت حسرت دیا س کے ساتھ انہوں نے جب آسمان کی طر ف نظر اٹھا ئی تو آواز آئی ’’اے مغرور بندے! گھر چلا جا ، ورنہ رو زانہ ہم اسی طر ح کھلا ئیں گے ۔ ‘‘


Topics


قلندرشعور

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب میں جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے قلندرکی تعریف  یہ بیان کی ہے کہ " یہ لوگ غرض ، طمع، حرص اورلالچ سے بے نیازہوتے ہیں ۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے میڈیم سے ہی چیزوں کو دیکھتے ، پرکھتے  اوراس کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں ۔کتاب قلندرشعور میں آپ نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ ہم کون سا طرزعمل اختیارکرکے ذہن کی ہر حرکت کے ساتھ اللہ کا احساس قائم کرسکتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں ذہن انسانی ، اللہ کی صفات کا قائم مقام بن جاتاہے ۔ 

روحانی علوم کے متلاشی خواتین وحضرات ، راہ سلوک کے مسافر عرفان حق کے طالب ، سائنسی علوم کے ماہر اورروحانی علوم کے مبتدی طلبا وطالبات کے لئے یہ کتاب مشعل راہ ہے ۔ قلندرشعورٹیکنالوجی عقل وشعور کی پرپیچ وادیوں میں سے گزار کر روحانی سائنس کے طلباء وطالبات کو شعوری دنیا سے اس پار(ماورائی عالم ) میں داخل کردیتی ہے ۔