Topics
پیدا ئش سے موت تک اور موت کے بعد کی زندگی میں اعراف ، حشر و نشر ، حساب و کتاب ، جنت و دوزخ ، اللہ کی تجلی کا دیدار سب کا سب یقین کے اوپر قائم ہے ۔ بنیادی بات یہ ہے کہ آدمی کو اس بات کا یقین ہو تا ہے کہ وہ زندہ ہے وہ موجود ہے اس کے اندر عقل و شعور کام کر تا ہے وہ ایک حد تک با اختیار ہے اور بڑی حد میں اس کے اوپر غیرا ختیاری کیفیا ت نا زل ہو تی ہیں مثلاً کو ئی آدمی اپنے ارادے اور اختیار سے اگر سانس لینا شروع کر دے تو وہ چند منٹ میں ہا نپ جا ئے گا ۔ رو ٹین کی زندگی میں بھوک لگتی ہے ۔ وہ کچھ کھا لیتا ہے ، پیاس لگتی ہے پانی پی لیتا ہے۔
یہی حال آدمی کے اندر اس مشین کا ہے جو مسلسل متواتر ہر لمحہ ہر آن چل رہی ہے ۔ اس مشین کے کل پر زے ذہن ، اعضا ئے رئیسہ دل، پھیپھڑے ، گر دے ، جگر اور آنتوں کی حرکت مسلسل جا ری ہے چا ر ارب کی آبادی میں ایک آدمی بھی ایسا نہیں جو اپنے ارادے اور اختیار سے اپنے اندر نصب کی ہو ئی مشین کو چلا تا ہو ۔ مشین بالکل غیر اختیاری طور پر چل رہی ہے ۔ اس مشین میں جو ایندھن استعمال ہو تا ہے اس پر بھی انسان کی دستر س نہیں ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب مشین بند ہو جا تی ہے تو دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت ، علم کی بڑی سے بڑی تر قی اسے چلا نہیں سکتی ۔ یہ مشین قدرتی نظام کے تحت بتدریج بھی بند ہو تی ہےاور ایک دم بھی بند ہو جا تی ہے ۔ بتدریج بند ہو نے کا نام بیماری اور مشین کے ایک دم بند ہو نے کو ہا رٹ فیلئر (HEART FAILURE) کہا جا تا ہے۔
انسان یہ سمجھتا ہے کہ بیماریوں کا علاج اختیاری ہے لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ چا ر ارب کی آبادی میں ایک انسان بھی ایسا نہیں جو بیما ر ہو نایا مر نا چا ہتا ہے ۔ اگر زندہ رہنا اختیاری ہو تو دنیا میں کو ئی آدمی موت سے ہم آغوش نہیں ہوتا ، علیٰ ہذ القیاس زندگی کی بنیادی عوامل اور وہ حر کات جن پر زندگی رواں دواں ہے انسان کے لئے اختیاری نہیں ہے اگر ہم بنیاد پر غور کر یں تو زندگی اس وقت شروع ہو تی ہے جب آدمی پیدا ہو تا ہے جبکہ پیدا ئش پر انسان کا کو ئی اختیار نہیں ہے ۔ لا کھوں سال کے طویل عرصے میں میں ایک فر د بھی ایسا نہیں جو اپنے ارادے اور اختیار سے پیدا ہو گیا ہو پیدا ہو نے والی ہر چیز ، پیدا ہو نے والا ہر فرد ایک وقت معینہ کے لئے اس دنیا میں آتا ہے اور جب وہ وقت پو را ہو جا تا ہے تو آدمی ایک سیکنڈ کے لئے بھی اس دنیا میں ٹھہر نہیں سکتا ، مر جا تا ہے ۔ یہ ایسی حقیقت ہے جس میں زیادہ سوچ بچار اور تفکر کی ضرورت پیش آئے ، ہر لمحہ ، ہر آن ، ہر منٹ ، ہر سیکنڈ یہ صورت حال واقع ہو رہی ہے ۔ مختصر یہ کہ اللہ اپنی مر ضی سے پیدا کر تا ہے اور مختلف صورتوں میں پیدا کر تا ہے ۔ قد کاٹھ مختلف ہو تا ہے یہ نہیں دیکھا گیا ہے کہ کو ئی بنیادی طور پر کو تا ہ قد آدمی سات فٹ کا بن گیا ہو ۔ ایسی بھی دنیا میں کو ئی مثال نظر نہیں آتی کہ ساٹھ فٹ کا آدمی گھٹ کر ڈھائی فٹ کا ہو گیا ہو ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب میں جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے قلندرکی تعریف یہ بیان کی ہے کہ " یہ لوگ غرض ، طمع، حرص اورلالچ سے بے نیازہوتے ہیں ۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے میڈیم سے ہی چیزوں کو دیکھتے ، پرکھتے اوراس کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں ۔کتاب قلندرشعور میں آپ نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ ہم کون سا طرزعمل اختیارکرکے ذہن کی ہر حرکت کے ساتھ اللہ کا احساس قائم کرسکتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں ذہن انسانی ، اللہ کی صفات کا قائم مقام بن جاتاہے ۔
روحانی علوم کے متلاشی خواتین وحضرات ، راہ سلوک
کے مسافر عرفان حق کے طالب ، سائنسی علوم کے ماہر اورروحانی علوم کے مبتدی طلبا
وطالبات کے لئے یہ کتاب مشعل راہ ہے ۔ قلندرشعورٹیکنالوجی عقل وشعور کی پرپیچ
وادیوں میں سے گزار کر روحانی سائنس کے طلباء وطالبات کو شعوری دنیا سے اس پار(ماورائی عالم ) میں داخل
کردیتی ہے ۔