Topics
برائی یا بھلائی کا جہاں تک تعلق ہے ، کو ئی عمل دنیا میں بُرا ہے نہ اچھا ہے ۔ دراصل کسی عمل میں معانی پہنانا ، اچھائی یا برائی ہے۔معانی پہنانے سے مراد نیت ہے ۔ عمل کر نے سے پہلے انسان کی نیت میں جو کچھ ہو تا ہے وہی خیر اور شر ہے ۔
آگ کا کام جلا نا ہے ایک آدمی لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے لوگوں کو کھا نا پکا نے میں استعمال کر تا ہے تو یہ عمل خیر ہے ۔ وہی آدمی ا س آگ سے لوگوں کے گھر کو جلا ڈالتا ہے تو یہ برا ئی ہے ۔
جن قوموں سے ہم مر عوب ہیں اور جن قوموں کے ہم دست نگر ہیں ۔ ان کی طر ز فکر کا اگر بغور مطا لعہ کیا جا ئے تو یہ بات سورج کی طرح رو شن ہے کہ سائنس کی ساری تر قی کا زور اس بات پر ہے کہ ایک قوم اقتدار حاصل کر ے ۔ اور ساری نوع انسانی اس کی غلام بن جا ئے ۔ یا ایجادات سے اتنے ما لی فوائد حاصل کئے جا ئیں کہ زمین پر ایک مخصوص قوم یا مخصوص ملک مال دار ہو جا ئے ۔ اور نوع انسانی غریب اور مفلوک الحال بن جا ئے کیوں کہ اس تر قی میں اللہ کے ذہن کے مطا بق نوع انسانی کی فلاح مضمر نہیں ہے اس لئے یہ ساری تر قی نوع انسانی کے لئے اور خود ان قوموں کے لئے جنہوں نے جدو جہد اور کو شش کے بعد نئی نئی ایجادات کی ہیں مصیبت اور پریشانی بن گئی ہے ۔ مصیبت اور یہ پر یشانی ایک روز اد بار بن کر زمین کو جہنم بنا دے گی ۔
جب تک آدمی کے یقین میں یہ بات رہتی ہے کہ چیزوں کا موجود ہو نا یا چیزوں کا عدم میں چلے جانا اللہ کی طر ف سے ہے اس وقت تک ذہن کی مر کز یت قائم رہتی ہے اور جب یہ یقین مستحکم ہو کر ٹوٹ جا تا ہے تو آدمی ایسے عقیدے ایسے وسوسوں میں گر فتا ر ہو جا تا ہے جس کا نتیجہ ذہنی انتشار ہو تا ہے ۔ حالانکہ اگر دیکھا جا ئے تو یہ بات با لکل سامنے کی ہے کہ انسان کا ہر عمل ہر فعل ہر حرکت کسی ایسی ہستی کے تا بع ہے جو ظا ہری آنکھوں سے نظر نہیں آتا ، ماں کے پیٹ میں بچے کا قیام ، نو مہینے تک غذا کی فراہمی ، پیدا ہو نے سے پہلے ماں کے سینے میں دودھ ، پیدا ئش کے بعد دودھ کی فرا ہمی ، دودھ کی غذائیت سے ایک اعتدال اور توازن کے ساتھ بچے کا بڑھنا ، چھوٹے سے بچے کا بڑھ کر سات فٹ کا ہو جا نا ، جوانی کے تقاضے ان تقاضوں کی تکمیل میں وسائل کی تکمیل ، وسائل فراہم ہو نے سے پہلے وسائل کی موجودگی ۔ اگر اللہ زمین کو منع کر دے کہ وہ کھیتیاں نہ اگا ئے تو حصولِ رزق مفقود ہو جا ئے گا ۔ شادی کے بعدوالدین کے دل میں یہ تقاضا کہ ہمارا کو ئی نام لینے والا ہو اس درجے میں انتہا ئی درجہ شدت اور اس کے نتیجے میں ماں باپ بننا ، ماں باپ کے دل میں اولاد کی محبت پیدا ہونا ، غور طلب بات یہ ہے کہ اگر اللہ والدین کے دل میں محبت نہ ڈالے تو اولاد کی پر ورش کیسے ہو سکتی ہے اولاد کی پر ورش کے لئے ماں باپ کے دل میں اولاد کی محبت صرف آدمیوں کے لئے مخصوص نہیں بلکہ یہ جذبہ اللہ کی ہر مخلوق میں مشترک ہے اور اسی محبت کے سہارے ماں باپ اپنی اولاد کی پر ورش کر تے ہیں ۔ نگہداشت کر تے ہیں اور ان کے لئے وسائل فراہم کر تے ہیں ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب میں جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے قلندرکی تعریف یہ بیان کی ہے کہ " یہ لوگ غرض ، طمع، حرص اورلالچ سے بے نیازہوتے ہیں ۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے میڈیم سے ہی چیزوں کو دیکھتے ، پرکھتے اوراس کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں ۔کتاب قلندرشعور میں آپ نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ ہم کون سا طرزعمل اختیارکرکے ذہن کی ہر حرکت کے ساتھ اللہ کا احساس قائم کرسکتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں ذہن انسانی ، اللہ کی صفات کا قائم مقام بن جاتاہے ۔
روحانی علوم کے متلاشی خواتین وحضرات ، راہ سلوک
کے مسافر عرفان حق کے طالب ، سائنسی علوم کے ماہر اورروحانی علوم کے مبتدی طلبا
وطالبات کے لئے یہ کتاب مشعل راہ ہے ۔ قلندرشعورٹیکنالوجی عقل وشعور کی پرپیچ
وادیوں میں سے گزار کر روحانی سائنس کے طلباء وطالبات کو شعوری دنیا سے اس پار(ماورائی عالم ) میں داخل
کردیتی ہے ۔