Topics
یہ بات روز مرہ ہمارے مشاہدے میں آتی ہے کہ ہماری نظر ایک متعین حد میں کام کر تی ہے لیکن اگر نظر کی متعین حدود میں اضافہ کر دیا جا ئے تو نظر عام حالت میں جتنا دیکھتی ہے اس سے زیادہ فاصلہ پر دیکھ سکتی ہے ۔ مثلاً ہم آنکھوں پر دوربین لگا تے ہیں ۔ دوربین کے اندر جو شیشے (LENSES)لگے ہو ئے ہو تے ہیں وہ ان طول موج (WAVE LENGTH)کو جو نظر کے لئے دیکھنے کا با عث بنتے ہیں آنکھوں کے سامنے لے آتے ہیں ۔ اب ہم میلوں فا صلے کی چیز دیکھ لیتے ہیں۔ کسی آدمی کی نظر کمزور ہے ۔ سامنے کی چیز اسے نظر نہیں آتی ۔ اور چشمہ لگا نے کے بعد وہ دور تک دیکھنے لگتا ہے ۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ شیشے کے اندر ایسی صلا حیت موجود ہے اگر آپ اس کو صیقل کر لیں، اس کی طا قت بڑھا دیں تونظر دور تک کام کر نے لگتی ہے ۔جب آپ شیشے کے اندر سے میلوں میل دیکھ رہے ہیں تو اس آنکھ سے جس آنکھ نے فر شتوں کو دیکھا ہے اور اللہ کو دیکھا ہے غیب کی دنیا میں کیوں نہیں دیکھ سکتے۔
یہ نہ سمجھا جا ئے کہ آدم کو ئی ایسی چیز ہے اس کے اندر مخصوص صلا حیتیں کام کر تی ہیں اور آدم کی اولاد کو ئی ایسی چیز ہے جس میں وہ صلا حیتیں کام نہیں کر تیں ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب میں جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے قلندرکی تعریف یہ بیان کی ہے کہ " یہ لوگ غرض ، طمع، حرص اورلالچ سے بے نیازہوتے ہیں ۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے میڈیم سے ہی چیزوں کو دیکھتے ، پرکھتے اوراس کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں ۔کتاب قلندرشعور میں آپ نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ ہم کون سا طرزعمل اختیارکرکے ذہن کی ہر حرکت کے ساتھ اللہ کا احساس قائم کرسکتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں ذہن انسانی ، اللہ کی صفات کا قائم مقام بن جاتاہے ۔
روحانی علوم کے متلاشی خواتین وحضرات ، راہ سلوک
کے مسافر عرفان حق کے طالب ، سائنسی علوم کے ماہر اورروحانی علوم کے مبتدی طلبا
وطالبات کے لئے یہ کتاب مشعل راہ ہے ۔ قلندرشعورٹیکنالوجی عقل وشعور کی پرپیچ
وادیوں میں سے گزار کر روحانی سائنس کے طلباء وطالبات کو شعوری دنیا سے اس پار(ماورائی عالم ) میں داخل
کردیتی ہے ۔