Topics
اللہ نے انسان کی تخلیق کچھ اس طر ح کی ہے وہ کسی جگہ ٹھہرتا نہیں ہے بے رنگی سے نکل کر وہ ورائے بے رنگ کا مشاہدہ کر لیتا ہے اور یہی اللہ کی ذات کا عرفان ہے قلندر شعور ہماری رہنمائی کر تا ہے کہ انسان اپنے ارادے اور اختیار سے اپنے اوپر ایسی کیفیا ت اور وارددات محیط کر سکتا ہے جو اسے دنیا وی خیالات سے آزاد کر دیں ۔ دنیا وی خیالات سے آزاد ہو نے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی کھا نا پینا چھو ڑ دے ، کپڑے نہ پہنے ، گھر میں نہ رہے ، شادی نہ کر ے ، دنیا وی خیالات سے آزادی کا مفہوم یہ ہے کہ دنیا وی معاملات میں ذہن کا انہماک نہ ہو دنیاوی معاملات کو رو ٹین کے طور پر پو را کر ے ۔ مثلاً ایک آدمی کی ضرورت ہے کہ وہ پانی پئے اسے جب پیاس لگتی ہے وہ پا نی پی لیتا ہے لیکن وہ تمام دن اپنے اوپر پیاس کو مسلط نہیں رکھتا ۔ پانی کا تقاضا پید اہو ا ، پا نی پیا اور بھول گیا یہی صورت حال سونے اور جا گنے کی ہے ۔
جب کو ئی بندہ کسی ایک ،دو ، دس ، بیس، پچاس خیالا ت میں اس طرح گھر جا تا ہے اس کا ذہن معمول سے ہٹ جا ئے تووہ بے رنگی سے دور ہو کر رنگوں کی دنیا میں مصروف ہو جا تا ہے اور جب کو ئی بندہ دنیا وی ضروریات کے تمام اعمال و افعال کو روٹین کے طور پر انجام دیتا ہے تو وہ رنگوں کی دنیا میں رہتے ہو ئے بھی بے رنگ دنیا کی طر ف سفر کر تا ہے ۔
ایک مر تبہ ایک شاگر د نے حضرت جنید بغدادی ؒ سے سوال کیا کہ تر ک دنیا کیا ہے ؟ حضرت جنید ؒ نے جواب دیا ۔’’دنیا میں رہتے ہو ئے آدمی کو دنیا نہ نظر آنا ۔‘‘
شاگردنے پوچھا ۔’’یہ کس طرح ممکن ہے ؟‘‘
حضر ت جنید ؒ نے مسکرا کر جواب دیا ۔میں جب تمہاری عمر کا تھا ، میں نے اپنے پیرو مرشد سے یہی سوال کیا تھا تو انہوں نے جواب دیا۔
آؤ بغداد کے سب سے مشہور بازار کی سیر کریں ۔ چنانچہ میں اور شیخ بغداد کے مصرو ف ترین بازار کی طرف نکل گئے ۔ جیسے ہی ہم بازار کے صدر دروازے میں داخل ہو ئے میں نےدیکھا میں اور میرے شیخ ایک ویرانے میں کھڑے ہیں۔ حد نظر تک ریت کے ٹیلوں اور بگولوں کے سوا کچھ نہیں تھا میں نے حیرت سے کہا شیخ!یہاں بازار تو نظر نہیں آرہا ۔‘‘
شیخ نے شفقت سے میرے سر پر ہاتھ رکھ دیا ۔ ’’جنید !یہی ترک دنیا ہے کہ آدمی کو دنیا نظر نہ آئے ۔‘ ‘ اون کے لبادے اوڑھ لیناجو کی روٹی کھا لینا اورعالیشان مکانوں سے منہ موڑ کر جنگلوں میں نکل جا نا ترک دنیا نہیں ہے ۔ تر ک دنیا یہ بھی ہے کہ لذیز ترین اشیا ء بھی کھا ؤ تو جو کی روٹی کا ذائقہ ملے ۔ اطلس و دیبا اور حر یر بھی پہنو تو ٹاٹ کا لباس محسوس ہو ۔ گنجان بازاروں اوار خوبصورت محلات کے درمیان سے بھی گزروتو بیابان نظر آئے ۔ لیکن جنید ! یہ سب با تیں پڑھنے سے اور دوسروں کو سمجھا نے سے اس وقت تک سمجھ میں نہیں آئیں گی جب تک تم ترک دنیا کے تجر بے سے نہ گزرو۔ آؤ اب گھر چلتے ہیں ۔ اب جیسے ہی ہم اس ہولناک ویرانے سے گھر کے لئے روانہ ہوئے ہم بغداد کے اس با رونق بازار کے صدر دروازے پر کھڑے تھے ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب میں جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے قلندرکی تعریف یہ بیان کی ہے کہ " یہ لوگ غرض ، طمع، حرص اورلالچ سے بے نیازہوتے ہیں ۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے میڈیم سے ہی چیزوں کو دیکھتے ، پرکھتے اوراس کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں ۔کتاب قلندرشعور میں آپ نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ ہم کون سا طرزعمل اختیارکرکے ذہن کی ہر حرکت کے ساتھ اللہ کا احساس قائم کرسکتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں ذہن انسانی ، اللہ کی صفات کا قائم مقام بن جاتاہے ۔
روحانی علوم کے متلاشی خواتین وحضرات ، راہ سلوک
کے مسافر عرفان حق کے طالب ، سائنسی علوم کے ماہر اورروحانی علوم کے مبتدی طلبا
وطالبات کے لئے یہ کتاب مشعل راہ ہے ۔ قلندرشعورٹیکنالوجی عقل وشعور کی پرپیچ
وادیوں میں سے گزار کر روحانی سائنس کے طلباء وطالبات کو شعوری دنیا سے اس پار(ماورائی عالم ) میں داخل
کردیتی ہے ۔