Topics
اللہ کی طرز فکر یہ ہے کہ وہ اپنی مخلوق کی خدمت کر تا ہے اور اس خدمت کا کو ئی صلہ نہیں چا ہتا ۔بندہ جب اختیاری طور پر اس طر ز فکر کو اختیار کر لیتا ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ کی مخلوق کے کام آئے تو اسے قلندر شعور منتقل ہو جاتا ہے ۔ اور جب یہ طر ز فکر مستحکم ہو جا تی ہے تو اس کا ذہن ہر آن، ہر لمحہ اس طرف متوجہ رہتا ہے میں وہ کام کر رہا ہوں جو اللہ کے لئے پسندیدہ ہے بار بار اس عمل کا اعادہ ہو نے سے پہلے اس کے مشاہدات میں بے شمار ایسے واقعات آتے ہیں کہ اس کے اندر یہ یقین پیدا ہو جا تا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے جو کچھ ہو چکا ہے یا آئندہ ہو نے والا ہے وہ سب اللہ کی طر ف سے ہے اس تعلق کو استغنا کا نام دیا جا تا ہے ۔ پیغمبروں کی ساری زندگی اس عمل سے عبا رت ہے کہ ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے تمام انبیا ئے اکرام اور اولیا ء اللہ کے اندر استغنا کی طر ز فکر راسخ ہو تی ہے انبیا ء اس طر ز فکر کو حاصل کر نے کا اہتمام اس طر ح کیا کر تے تھے کہ وہ کسی چیز کے متعلق سو چتے تو اس چیز کے اور اپنے درمیان کو ئی رشتہ برا ہ راست قائم نہیں کر تے تھے ۔ ان کی طر ز فکر ہمیشہ ہو تی تھی کہ کائنات کی تمام چیزوں کا اور ہمارا ما لک اللہ ہے ۔کسی چیز کا رشتہ براہ راست ہم سے نہیں ہے بلکہ ہم سے ہر چیز کا رشتہ اللہ کی معرفت ہے رفتہ رفتہ ان کی یہ طر ز فکرمستحکم ہو جا تی ہے اوران کا ذہن ایسے رحجانات پیدا کر لیتا ہے جب وہ کسی چیز کی طر ف مخاطب ہو تے تو اس چیز کی طر ف خیال جا نے سے پہلے اللہ کی طر ف خیال جا تا ۔ انہیں کسی چیز کی طر ف تو جہ دینے سے پیشتر یہ احساس عادتاً ہو تا کہ یہ چیز ہم سے براہ راست کو ئی تعلق نہیں رکھتی ۔ اس چیز کا اور ہمارا واسطہ محض اللہ کی وجہ سے ہے ۔
اس طرز عمل میں ذہن کی ہر حرکت کے ساتھ اللہ کا احساس قائم ہو جا تا ہے اللہ ہی بحیثیت محسوس کے ان کا مخاطب ہو جاتا ہے ۔ رفتہ رفتہ اللہ کی صفات ان کے ذہن میں ایک مستقل مقام حاصل کر لیتی ہیں اور ان کا ذہن اللہ کی صفات کا قائم مقام بن جاتا ہے ۔ یہ مقام حاصل ہو نے کے بعد بندہ کے ذہن کی ہر حرکت اللہ کی صفات کی حرکت ہو تی ہے اور اللہ کی صفات کی کوئی حرکت قدرت اور حاکمیت کے وصف سے خالی نہیں ہے ۔ اولیاء اللہ میں اہل نظامت (اہل تکوین ) کو اللہ کی طرف سے یہی ذہن عطا ہوا ہے اور رشد و ہدایت اور تر غیبی پرو گرام پر عمل کر نے والے اولیائے کرام اپنی ریاضت اور مجاہدوں کے ذریعے اس ہی ذہن کو حاصل کر نے کی کوشش کر تے ہیں ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب میں جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے قلندرکی تعریف یہ بیان کی ہے کہ " یہ لوگ غرض ، طمع، حرص اورلالچ سے بے نیازہوتے ہیں ۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے میڈیم سے ہی چیزوں کو دیکھتے ، پرکھتے اوراس کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں ۔کتاب قلندرشعور میں آپ نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ ہم کون سا طرزعمل اختیارکرکے ذہن کی ہر حرکت کے ساتھ اللہ کا احساس قائم کرسکتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں ذہن انسانی ، اللہ کی صفات کا قائم مقام بن جاتاہے ۔
روحانی علوم کے متلاشی خواتین وحضرات ، راہ سلوک
کے مسافر عرفان حق کے طالب ، سائنسی علوم کے ماہر اورروحانی علوم کے مبتدی طلبا
وطالبات کے لئے یہ کتاب مشعل راہ ہے ۔ قلندرشعورٹیکنالوجی عقل وشعور کی پرپیچ
وادیوں میں سے گزار کر روحانی سائنس کے طلباء وطالبات کو شعوری دنیا سے اس پار(ماورائی عالم ) میں داخل
کردیتی ہے ۔