Topics
ترقی اور تنزل جب زیربحث آتا ہے تو ذہن اس طرف بھی متوجہ ہوتا ہے کہ آخر ترقی اور تنزل میں کون سے عوامل کار فر ما ہیں ۔ ابھی ہم بتا چکے ہیں کہ انفردای یا اجتما عی جدو جہد کے نتیجے میں ترقی نصیب ہو تی ہے ۔ اورانفرادی اور اجتما عی تساہل اور عیش پسندی کے نتیجے میں قوموں کو عروج کے بجا ئے زوال نصیب ہو تا ہے۔ تر قی کے یہی دو رخ ہیں ۔تر قی یا عزت وتو قیرکی ایک حالت یہ ہے کہ کسی فرد یا کسی قوم کو دنیا وی عزت اور دنیا وی دبدبہ اور دنیا وی شان و شوکت نصیب ہو ۔ ان دو رخوں پر اگر غور کیا جا ئے تو یہ بات پو ری طر ح سامنے آجا تی ہے کہ موجودہ دور میں سائنسی ترقی کادارومدارصرف ظاہری ترقی پر ہے بے شک وہ قومیں جنہوں نے علوم پر تفکر کیا ہے اور جدو جہد کے بعد نئی نئی اختراعات کی ہیں وہ دنیاوی اعتبار سے ترقی یافتہ ہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ یہی ترقی یافتہ قومیں سکون اور اطمینان سے محروم ہیں۔قلبی اطمینان اور رُوحانی سکون سے یہ قومیں اس لئے محروم ہیں کہ یہ حقیقت سے بے خبر ہیں یا حقیقی دنیا سے ابھی ان کا کو ئی واسطہ یا تعلق پیدا نہیں ہوا۔ حقیقت میں ذہنی انتشار نہیں ہوتا ۔ حقیقت کے اوپر کبھی خوف اور غم کے سائے نہیں منڈلا تے حقیقی دنیا سے متعارف لوگ ہمیشہ پُر سکون رہتے ہیں۔ موجودہ دور بے شک تر قی کا دور ہے لیکن اس تر قی کے ساتھ ساتھ جس قدر صعوبتیں پریشانیاں ، بے سکونی اور ذہنی انتشار سے نوع انسانی دو چار ہو ئی ہے ۔ اس کی نظیر پہلے کے دور میں نہیں ملتی ۔وجہ صرف یہی ہے کہ اس تر قی کے پیچھے ذاتی منعفت ہے وہ انفرادی ہویا قومی ہو۔ اگر یہ تر قی فی الواقع نوع انسانی کی فلا ح و بہبود کے لئے ہوتی تو قوموں کو اطمینان و سکون نصیب ہو تا ۔ انفرادی یا اجتما عی ذہن کا تعلق طر ز فکر سے ہے طر ز فکر میں اگر یہ بات ہے کہ ہماری کوشش اور اخترعات سے نوع انسانی کواور اللہ کی مخلوق کو فا ئدہ پہنچے تو یہ طرز فکرانبیاء کی طرز فکر ہے اور یہی طرز فکر اللہ کی طرز فکر ہے۔اور ان دونوں طرزوں کا اصطلاحی نام قلندر شعور ہے ۔ قلندر شعور ہمیں بتاتا ہے کہ اگر انسان کے اندر استغنا ہے تو وہ نئی نئی بیماریوں ، نئی نئی پریشانیوں سے محفوظ رہتا ہے۔
استغناء حاصل کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ انسان کی سوچ اور انسان کی طرز ِ فکر اُس طرزِ فکر سے ہم رشتہ ہو جو اللہ کی طرز فکر ہے ۔ہم زمین کے اوپر موجودات کا مشاہدہ کرتے ہیں تو یہ دیکھتے ہیں کہ اللہ نے اپنی مخلوق کے لئے بے شمار وسائل پیدا کئے ہیں۔ لیکن ان وسائل میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جس کا تعلق براہ راست اللہ کی کسی ضرورت سے ہو۔اللہ ہر چیز سے بے نیاز ہے۔ باوجود یہ کہ اللہ ہر چیز سے بے نیاز ہے اور اسے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے ، وہ اپنی مخلوق کے لئے ایک قانون کے دائرے میں تسلسل کے ساتھ وسائل فراہم کرتا رہتا ہے۔ اگر کسی موسم میں آم کی ضرورت ہے تو ایک نظام کے تحت درخت پر پھول آئے گا، آم لگیں گے اور ان آموں سے لوگوں کی ضروریات پوری ہو ں گی ۔ چوں کہ انسان وسائل کا محتاج ہے، اس لئے وہ اس طرح تو وسائل سے بے نیاز نہیں ہو سکتا کہ وہ ہر طرف سے اپنا رشتہ منقطع کرے لیکن یہ طرز فکراختیار کر سکتا ہے کہ یہ وسائل جو میری جد وجہد سے ظہور میں آتے ہیں پو ری نوع انسانی کا حصہ ہیں جس طرح میں ان سے فا ئدہ اٹھا تا ہوں اسی طر ح نوع انسانی کو فا ئدہ اٹھا نے کا پو را پو را حق ہے ۔ طرز فکر حاصل کر نے کے لئے ضروری ہے کہ انسان جس طر ز فکر کو حاصل کر نا چا ہتا ہے اس سے ذہنی قربت حاصل ہو ۔ مثال کے طور پر اگرآپ کسی نیک آدمی سے دو ستی کر نا چا ہتے ہیں تو اس جیسے کام کر نے لگیں گے، کسی جواری کو اپنا دو ست بنانا چا ہتے ہیں تو اس کے ساتھ جوا کھلنا شروع کر دیں گے، کسی اللہ والے سے دو ستی کر نا چا ہئیں گے تو وہ تمام مشاغل اپنا لیں گے ،جو اللہ والوں کے لئے پسندیدہ ہیں جس منا سبت سے ان مشاغل کو یا ان عادات کو اختیار کر تے چلے جا ئیں گے اسی منا سبت سے آپ کی طر ز فکر بدلتی چلی جا ئے گی ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب میں جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے قلندرکی تعریف یہ بیان کی ہے کہ " یہ لوگ غرض ، طمع، حرص اورلالچ سے بے نیازہوتے ہیں ۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے میڈیم سے ہی چیزوں کو دیکھتے ، پرکھتے اوراس کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں ۔کتاب قلندرشعور میں آپ نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ ہم کون سا طرزعمل اختیارکرکے ذہن کی ہر حرکت کے ساتھ اللہ کا احساس قائم کرسکتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں ذہن انسانی ، اللہ کی صفات کا قائم مقام بن جاتاہے ۔
روحانی علوم کے متلاشی خواتین وحضرات ، راہ سلوک
کے مسافر عرفان حق کے طالب ، سائنسی علوم کے ماہر اورروحانی علوم کے مبتدی طلبا
وطالبات کے لئے یہ کتاب مشعل راہ ہے ۔ قلندرشعورٹیکنالوجی عقل وشعور کی پرپیچ
وادیوں میں سے گزار کر روحانی سائنس کے طلباء وطالبات کو شعوری دنیا سے اس پار(ماورائی عالم ) میں داخل
کردیتی ہے ۔