Topics
کسی آدمی کے اندر پر واز کی صلا حیتوں کا انحصار بجلی کے ذخیرہ کے اوپر ہے ۔ جتنا زیادہ ذخیرہ موجود ہوتا ہے اسی منا سبت سے آدمی ٹا ئم اسپیس کی نفی کر نے پر قدرت حاصل کر لیتا ہے ۔ تا ریخ میں ایسے بے شمار واقعات موجود ہیں کہ ایک منٹ کے وقفے نے آدم زاد نے بغیر کسی ما دی وسائل کے کئی سال کا سفر طے کر لیا۔
غوث علی شاہ قلندر ؒ فر ما تے ہیں کہ ایک شخص شاہ عبد العزیز کی خدمت میں حاضر ہوا۔ لبا س کے اعتبار سے وہ شاہی عہدے دار معلوم ہو تا ہے ۔ شاہ صاحب سے کہنے لگا میری سر گزشت اتنی عجیب و غر یب ہے کہ کو ئی اعتبار نہیں کر تا ۔ اس معاملے میں میری عقل بھی کام نہیں کر تی حیران ہوں کہ کیا کہوں ۔ کیا کروں اور کہاں جا ؤں ۔ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں ۔ جو حکم فر ما ئیں بجا لا ؤں گا ۔
اس شخص نے سر گزشت بیان کر تے ہو ئے کہا :
’’میں لکھنو میں رہتا تھا ۔ بر سر روزگار تھا اور حالات اچھے گزررہے تھے کہ قسمت نے پلٹا کھا یا ۔ معاشی حالات خراب ہو تے گئے اور زیادہ وقت بے کا ری میں گزرنے لگا میں نے سو چا کہ ہا تھ پر ہا تھ دھرے رہنے سے بہتر ہے کہ بیرونِ شہر حصول ِ معاش کی کو شش کی جا ئے۔ تھوڑا سا زادِ راہ ساتھ لیا اور اودے پو ر کی طر ف روانہ ہو گیا ۔راستے میں دیواڑی کے مقام پر قیام کیا۔ اس زمانے میں وہ جگہ ویران پڑی تھی ۔ صرف ایک سرا ئے آباد تھی ۔ سرائے میں کچھ کسبیاں رہتی تھیں۔میں سرا ئے میں متفکر بیٹھا تھا کہ کیا کیا جا ئے ۔ پیسے بھی ختم ہو گئے تھے۔ ایک کسبی آئی اور کہنے لگی صاحب !کھا نا تیار ہے ۔ کھا نا لا ؤں؟ میں نے کہا ابھی سفر کی تھکان ہے ذرا ساسستالوں ۔ تھکن دور ہو نے پر کھا نا کھا ؤں گا۔ یہ سن کر وہ چلی گئی۔وہ کچھ دیر بعد آئی اور وہی سوال کیا ۔میں نے پھر وہی جواب دیااور وہ چلی گئی ۔ تیسری مر تبہ آکر پو چھا تو میں نے سب کچھ بتا دیا کہ میرے پاس جو کچھ تھا وہ خر چ ہو گیا ۔ اب ہتھیار اور گھو ڑا بیچنے کو نوبت آگئی ہے وہ خاموش چلی گئی۔ اور پھر دس رو پے لاکر مجھے دیئے اور کہا کہ یہ رو پے میں نے چرخہ کات کر اپنے کفن دفن کے لئے جمع کئے ہیں یہ میں آپ کو بطور قرض حسنہ دیتی ہوں ۔ جب اللہ آپ کو دے تو ادا کر دیجئے گا ۔
میں نے رو پے لے لئے اور راستے میں خر چ کر تا ہوا اودے پور جا پہنچا وہاں اللہ کا کر نا ایسا ہوا کہ فو راً ایک شاہی نوکری مجھے مل گئی ۔ ما لی اعتبار سے خوب تر قی ہو ئی اور چند سالوں میں دولت کی ریل پیل ہو گئی ۔ ان ہی دنوں گھر سے خط آیا کہ لڑکا جوانی کی حدود میں قدم رکھ چکا ہے اور جہاں اس کی نسبت ٹھہرائی گئی ہے وہ شادی پر اصرار کر رہے ہیں اس لئے جلدسے جلد آکر اس فرض سے سبک دوش ہو جاؤ ۔
راجہ سے اجا زت لیکر میں اپنے گھر کے لئے روانہ ہوا ۔ راستے میں ریواڑی کا مقام آیا پرانے واقعات ذہن میں تازہ ہو گئے ۔ سرا ئے جا کر کسبی کے متعلق معلوم کیا تو پتا چلا کہ وہ سخت بیمار ہے اور چند لمحوں کی مہمان ہے ۔ جب میں کسبی کے پاس پہنچا تو وہ آخری سانس لے رہی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کی رُو ح پر واز کر گئی میں نے تجہیز و تکفین کی اور اپنے ہا تھ سے قبر میں اتارا ۔ اس کام سے فا رغ ہو کر سرا ئے میں آکر سوگیا ۔ آدھی رات کے وقت پیسوں کا خیال آیا۔ دیکھا تو جیب میں رکھی ہو ئی پا نچ ہزار کی ہنڈی غائب تھی ۔ تلاش کیا نہ ملی ۔ سو چا کہ دفن کر تے وقت قبر میں گر گئی ہو گی ۔ اس خیال سے قبر ستان پہنچا اور قبر کھولنے لگا۔ قبر کے اندر اترا تو ایک عجیب و غریب صورت حال کا سامنا کر نا پڑا ۔ وہاں نہ میت تھی نہ ہنڈی ایک طر ف دروازہ نظر آرہا تھا ہمت کر کے دروازے کے اندر قدم رکھا تو ایک نئی دنیا سامنے تھی ۔ چا روں طر ف با غات کا سلسلہ پھیلا ہوا تھا۔ اور ہرے بھرے درخت سر اٹھا ئے کھڑے تھے ۔ با غ میں ایک طر ف ایک عالیشان عمارت بنی ہو ئی تھی ۔ عمارت کے اندر قدم رکھا تو ایک حسین و جمیل عورت پر نظر پڑی جو شاہانہ لباس پہنے ، بنا ؤ سنگھار کئے بیٹھی تھی اور اردگرد خدمت گار ہا تھ با ندھے کھڑے تھے ۔عورت نے مجھے مخا طب کر کے کہا کہ تم نے مجھے پہچانا ؟ میں وہی ہوں جس نے تمہیں دس رو پے دئیے تھے۔ اللہ کو میرا یہ عمل پسند آیا اور اس عمل کی بدولت مجھے یہ مر تبہ اور عروج عنایت فر ما یا ہے ۔ اور یہ تمہا ری ہنڈی ہے جو قبر میں گر گئی تھی یہ لو اور فو راً چلے جا ؤ ۔
میں نے اس سے کہا میں یہاں کچھ دیر ٹھہر کر سیر کر نا چاہتا ہوں۔ عورت نے جواب دیا تم قیامت تک یہاں کی سیر نہیں کر سکتے ۔فو راً چلے جا ؤ اس عرصے میں دنیا کہاں سے کہاں تک پہنچ چکی ہو گی ۔ عورت کی ہدایت پر میں نے عمل کیا با ہر نکلا تو عجیب عالم تھا نہ وہاں سرا ئے تھی اور نہ ہی وہ لوگ تھے جو اس کے قبر کے اندر جا تے وقت موجود تھے ۔ بلکہ چا روں طر ف شہری آ بادی پھیلی ہو ئی تھی ۔ کچھ لوگوں سے سرا ئے کے بارے میں پو چھا لیکن سب نے اپنی لا علمی کا اظہار کیا ۔بعض لوگوں سے اپنی روائیدا د بیان کی لیکن سب نے مجھے مخبوط الحواس قرار دیا ۔ آخر کار ایک آدمی نے کہا کہ میں تمہیں ایک بزرگ کے پاس لے چلتا ہوں ۔ وہ عمر رسیدہ ہیں شاید وہ کچھ بتا سکیں اس نے بزرگ کو سارا حال سنا یا کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا کہ مجھے کچھ کچھ یاد پڑتا ہے میرے پر دادا بتا یا کر تے تھے کہ کسی زمانے میں ایک سرا ئے موجود تھی ۔ سرا ئے میں ایک امیر آکر ٹھہرا تھا ایک رات پر اسرار طر یقے سے غائب ہو گیا ۔ پھر اس کے بارے میں کچھ پتہ نہ چلا۔ میں نے کہا میں وہی امیر ہوں جو سرا ئے سے غائب ہوا تھا یہ سن کر وہ بزرگ اور حاضرین محفل بہت حیران ہو ئے ۔
اتنا بتا کر وہ خاموش ہو گیا ۔ پھر شاہ عبد العزیز سے کہنے لگا اب بتا ئیے میں کیا کروں ۔ کہاں جا ؤں ۔ نہ گھر ہے نہ ٹھکا نہ ۔ دو سرے یہ کہ اس حیرت انگیز اور نا قابل یقین واقعے نے میرے ذہن کو مفلوج کر کے رکھ دیا ۔ شاہ صاحب نے کہا تم نے جو کچھ بتا یا وہ صیحح ہے۔ اس عالم اور اس عالم کے پیمانے الگ الگ ہیں ۔
شاہ صاحب نے اس شخص کو ہدا یت دی کہ اب تم بیت اللہ چلے جا ؤ اور با قی زندگی یاد الٰہی میں گزار دو ۔ چنا نچہ آپ نے اسے زادراہ دے کر روانہ فر ما دیا ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب میں جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے قلندرکی تعریف یہ بیان کی ہے کہ " یہ لوگ غرض ، طمع، حرص اورلالچ سے بے نیازہوتے ہیں ۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے میڈیم سے ہی چیزوں کو دیکھتے ، پرکھتے اوراس کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں ۔کتاب قلندرشعور میں آپ نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ ہم کون سا طرزعمل اختیارکرکے ذہن کی ہر حرکت کے ساتھ اللہ کا احساس قائم کرسکتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں ذہن انسانی ، اللہ کی صفات کا قائم مقام بن جاتاہے ۔
روحانی علوم کے متلاشی خواتین وحضرات ، راہ سلوک
کے مسافر عرفان حق کے طالب ، سائنسی علوم کے ماہر اورروحانی علوم کے مبتدی طلبا
وطالبات کے لئے یہ کتاب مشعل راہ ہے ۔ قلندرشعورٹیکنالوجی عقل وشعور کی پرپیچ
وادیوں میں سے گزار کر روحانی سائنس کے طلباء وطالبات کو شعوری دنیا سے اس پار(ماورائی عالم ) میں داخل
کردیتی ہے ۔