Topics
ہدہد کا دیر سے آنا اور سلیمان ؑ کو ملکہ سبا ء کے متعلق اطلاع دینا اور یہ بتانا کہ وہ اور اس کی قوم آفتاب پر ست ہے اور ہدہد کا پیغام لیکر جا نا یہ سب با تیں نکات سے خالی نہیں ہیں ۔ ان با توں میں اللہ کی حکمت پو شیدہ ہے ۔
پہلی حکمت تویہ ہے کہ ، سلیمانؑ جو انسان تھے انسانوں ، جنات ، پر ندوں ، چرندوں ، درندوں پر حکومت کر تے تھے ۔
دو سری حکمت یہ ہے کہ ان میں سے کو ئی سر کشی کی ہمت بھی نہیں کر سکتا تھا اور سر کشی کر تا تو اسے سزا دی جا تی جیسا کہ سلیمان ؑ نے ہدہد کے لئے کہا تھا ۔
تیسری حکمت یہ ہے کہ با وجود اتنے بڑے لشکر کے جس میں جنات ، انسان ، پر ندے وغیرہ بھی شامل تھے اللہ ان تمام لشکر کی شکم پری کے لئے رزق فراہم کر تا تھا۔
اس قصے میں یہ بتا یا گیا ہے کہ سلیمان ؑ کے لشکر میں ایسا جن بھی تھاجو ایک یا دو ساعت میں ملکہ سبا کا تخت یمن سے بیت المقدس لا سکتا تھا ۔ یمن اور بیت المقدس کا فا صلہ تقریباً ڈیرھ ہزار میل ہے ۔
اس قصے سے ہمیں یہ بھی پتا چلتا ہے کہ انسان کی رسائی جنات سے بھی زیادہ ہے کیوں کہ وہ کتاب کا علم رکھتا ہے حتی کہ ایک ایسا ہی انسان علم کے زور پر ملکہ کا تخت ایک آن میں لے آیا ۔ اللہ نے اس بات پر زور دیا کہ آسمانی کتابوں میں وہ علم موجود ہے جس سے نوع انسانی ہر طر ح کا استفادہ کر سکتی ہے ۔ اس میں نبی ہونے کی کو ئی شرط نہیں بلکہ بندے کے اندر یہ صلا حیت موجود ہے ۔ کتاب کا علم سیکھ کر بندہ ایسی مسند پر قیام فر ما ہو جا تا ہے جہاں اسے کا ئنات میں تصرف کر نے کی صلا حیت ودیعت کر دی جا تی ہے ۔
اس صلا حیت کو اگر کو ئی بندہ ٹھکرا دے یا سمجھے کہ میری کیا حقیقت ہے کہ میں اس علم کو سمجھ سکوں تو یہ غلط ہے اس لئے کہ اللہ نے سلیمانؑ کے قصے میں بندے کا تذکرہ کر کے یہ صلا حیت عام کر دی بشرطیکہ وہ تفکر سے کام لے اور اسے تلاش کر ے ۔
یہ قانون بیان کر کے پیغمبروں کی فضلیت کم کر نا ہمارا منشاہ نہیں ہے پیغمبر اللہ کے منتخب اور نوع انسانی کا جو ہر ہو تے ہیں ۔ اور نوع انسانی کے تمام علوم کا مخزن و منبع بھی اللہ کے فر ستادہ پیغمبر ہیں ۔ بتا نا یہ مقصود ہے کہ نوع انسانی کا ہر فرد پیغمبروں کے علم سے استفادہ کر کے ماورائی دنیا میں تصرف کر سکتا ہے ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب میں جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے قلندرکی تعریف یہ بیان کی ہے کہ " یہ لوگ غرض ، طمع، حرص اورلالچ سے بے نیازہوتے ہیں ۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے میڈیم سے ہی چیزوں کو دیکھتے ، پرکھتے اوراس کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں ۔کتاب قلندرشعور میں آپ نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ ہم کون سا طرزعمل اختیارکرکے ذہن کی ہر حرکت کے ساتھ اللہ کا احساس قائم کرسکتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں ذہن انسانی ، اللہ کی صفات کا قائم مقام بن جاتاہے ۔
روحانی علوم کے متلاشی خواتین وحضرات ، راہ سلوک
کے مسافر عرفان حق کے طالب ، سائنسی علوم کے ماہر اورروحانی علوم کے مبتدی طلبا
وطالبات کے لئے یہ کتاب مشعل راہ ہے ۔ قلندرشعورٹیکنالوجی عقل وشعور کی پرپیچ
وادیوں میں سے گزار کر روحانی سائنس کے طلباء وطالبات کو شعوری دنیا سے اس پار(ماورائی عالم ) میں داخل
کردیتی ہے ۔