Topics

سائنس اور خر ق عادات

خرق عادات کے سلسلے میں سائنسی نقطہ نظر سے جو کوشش کی جا رہی ہے ان سے ثابت ہو جا تا ہے کہ انسان اپنی ذاتی کو ششوں سےاور معینہ مشقوں سے اپنے اندر ماورائی صلا حیتوں کو بیدار کر لیتا ہے ٹیلی پیتھی اور ہپنا ٹزم کے سلسلے میں یو رپ اوربالخصوص روس میں جو پیش رفت ہو ئی ہے اس کے پیش نظر اگرصر ف عبا دات و ریاضات کو ماورائی علوم کے حصول کا ذریعہ سمجھ لیا جا ئے تو یہ بات بہت کمزور ہو جا تی ہے کیوں کہ وہ قومیں جن کا مذہب پر کو ئی عقیدہ نہیں ہے ماورائی علوم کے حصول میں قابل تذکرہ حد تک ترقی کرچکی ہیں۔

رُو حانیت  میں ایک تذکرہ عام طور پر آتا ہے ،تصرف کر نا یعنی شیخ پیرو مر شد یا گرو اپنے مرید یا  رُو حانی  فرزند پر توجہ کر کے اس کے اندر کچھ رُو حانی  تبدیلیاں پیدا کر دیتا ہے یہ تصرف آج کی دنیا میں ایک سائنس دان بھی کر لیتا ہے اور ٹیلی پیتھی کے ذریعے اپنے حسب منشا لوگوں کو متا ثر کرکے وہ کا م کر نے پر مجبور کر سکتا ہے جو فی الوقت اس کے ذہن میں ہو تا ہے ۔ یہ بات بھی ہمارے سامنے آچکی ہے کہ سائنسدانوں نے خلا میں چہل قدمی کا دعویٰ کیا ہے ۔ 

رُو حانیت  میں ایک اصطلاع استعمال کی جا تی ہے ’’اندر دیکھنا ‘‘ یعنی اندر کی آنکھ سے اس سیارے سے با ہر کی دنیا کا مشاہدہ کر لینا ہے ۔ 

آدمی کے اندر ایسی صلا حیتیں بیدار ہو جا تی ہیں، جن صلا حیتوں کی بنیاد پر وہ ایسے علوم کا اظہار کر تا ہے جو علوم کتابوں میں نہیں ملتے سائنس نے اس طر ف کا فی پیش رفت کی ہے اور ایسے ایسے علوم کا اظہار ہو چکا ہے جس کے اوپر ابتداء میں شعور انسانی نے یقین نہیں کیا ۔لیکن وہ چیزیں وجود میں آئیں اور انسان ان کے اوپر یقین کر نے پر مجبور ہو گیا ۔ ان حا لات میں رو حانیت کی اصطلا حیں ’توجہ ‘ تصرف ، با طنی نگاہ کا کھلنا ، زمان و مکان سے آزادی ایک معمہ بن گئی ۔ اب تک یہ سمجھا جا تا رہا ہے کہ ماورائی نظر کا متحرک ہو نا صرف ذکر و فکر اور اشغال سے ممکن ہے ۔ موجودہ سائنسی دور میں یہ سمجھنا ضروری ہو گیا ہے کہ جب ایسے لوگ جو مذہب پر عقیدہ نہیں رکھتے تصرف کر سکتے ہیں ان کے اندر با طنی نگا ہ بیدار ہو سکتی ہے ، اور وہ نئے نئے علوم کی دا غ بیل ڈال سکتے ہیں ، خلا میں چہل قدمی کر سکتے ہیں تو پھر یہ رو حانیت کیا ہے ؟

رُو حانیت  کے ساتھ مذہب کا تذکرہ آتا ہے ۔ مذہب کی بنیادیں بھی ان  ہی اصولوں پر رکھی گئی ہیں کہ آدمی مذہبی فرائض پو رے کر نے کے بعد اس قابل ہو جا تا ہے کہ وہ اپنی زندگی یا دو سروں کی زندگی میں تصرف کر سکے ۔ اس کے اندر باطنی نگاہ کے سامنے زمین سے با ہر یا زمین کے اندر کی چیزیں آجا ئیں ۔  لیکن جب ہم مذہب کے پیروکاروں کا مطالعہ کر تے ہیں تو لا کھوں کروڑوں میں ہمیں ایک آدمی بھی مشکل سے ایسا ملتا ہے جس کے اندر تصرف کی طا قت بحال ہو گئی ہو ۔ جس کے اندر با طنی نگاہ کام کر تی ہو یہ بڑی عجیب بات ہے کہ مذہبی لوگ ان علوم سے بے خبر ہیں جن علوم کی نشاندہی ایسے لوگوں نے کی ہے جو مذہب پر عقیدہ نہیں رکھتے ان حالات میں ہر سنجیدہ آدمی سوچنے پر مجبور ہے کہ پھر مذہب کیا ہے ؟

قانون :

کائنات میں بے شمار نوعیں ہیں ۔ ہر نوع کاہر فر د نوعی اور انفرادی حیثیت سے خیالات کی لہروں کے ذریعے ایک دوسرے سے مسلسل اور پیہم ربط رکھتے ہیں اور یہ مسلسل پیہم ربط ہی افراد کا ئنات کے درمیان تعارف کا سبب ہے ۔ خیا لات کی یہ لہریں دراصل انفرادی اور اجتما عی اطلاعات ہیں جو ہر لمحہ ہر آن کا ئنات کے افراد کو زندگی سے قریب کر تی ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری پو ری زندگی خیالات کے دوش پر سفر کر تی ہے اور خیالات کی کار فر ما ئی یقین اور شک پر قائم ہے۔ یہی نقطہ آغاز مذہب کی بنیاد ہے ۔ 

آدمی زندگی کے مراحل وقت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں طے کر تا ہے اور زندگی بسر کر نے کے لئے ذہن میں وقت کے چھو ٹے چھو ٹے ٹکڑے جوڑتا ہے اور ان ہی ٹکڑوں سے کام لیتا ہے۔ ہم یا تو وقت کے اس ٹکڑے سے آگے  مسلسل دوسرے  ٹکڑے پر آجاتے ہیں یا وقت کے اس ٹکڑے سے پلٹتے ہیں ۔اس کو اس طر ح سمجھنا چا ہئے کہ ابھی آدمی سو چتا ہے کہ میں کھا نا کھا ؤں گا ۔ لیکن اس کے پیٹ میں گرانی ہے، اس لئے یہ ارادہ ترک کر دیتا ہے۔ وہ کب تک اس ترک پر قائم رہے گا اس کے بارے میں اسے معلوم نہیں ۔ علیٰ ہذ القیاس  اس کی زندگی کے اجزائے تر کیبی یہی افکار ہیں جو اسے نا کام یا کا میاب بنا تے ہیں، ابھی وہ ایک ارادہ کر تا ہے پھر اسے تر ک کر دیتا ہے چا ہے منٹوں میں تر ک کرے چاہے گھنٹوں میں ، چا ہے مہینوں میں ، چا ہے سالوں میں ۔بتا یا یہ مقصود ہے کہ ترک آدمی کی زندگی کا جزواعظم ہے ۔ 

بہت سی باتیں ہیں جن کو دشواری ،مشکل ، پر یشانی ، بیماری ، بے زاری ، بے عملی ، بے چینی وغیرہ وغیرہ کہتا ہے ۔ اب دوسری طرف وہ ایک چیز کا نام رکھتا ہے سکون ۔ یہی وہ سکون ہے جس میں وہ ہر قسم کی آسانیاں تلاش کر تا ہے ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ سب حقیقی ہیں بلکہ ان میں زیادہ تر مفروضات ہیں ۔ یہی وہ چیزیں ہیں جو انسان کو آسان معلوم ہو تی ہیں اور یہی رحجان ہے جو آسانیوں کی طر ف ما ئل کر تا ہے۔ دراصل انسان کے دماغ کی ساخت ہی ایسی ہے کہ وہ آسانیوں کی طر ف دوڑتا ہے۔ ہر مشکل سے بھا گتا ہے ظاہر ہے کہ یہ دو سمتیں ہیں ان دو سمتوں میں آدمی افکار کے ذریعے زندگی گزارتا ہے ۔اس کی ہر حرکت کا منبع ان دو سمتوں سے ایک سمت ہے۔ ہو تا یہ ہے کہ ابھی ہم نے ایک تدبیر کی ۔اس وقت جب ہم اس تدبیر کی تنظیم کر رہے تھے وہ ہر طر ح مکمل تھی اور اس کی سمت بھی صیحح تھی لیکن صرف چند قدم چلنے کے بعد ہماری سمت میں تبدیلی ہو گئی ۔ تبدیلی ہو تے ہی افکار کا رخ بدل گیا ۔نتیجہ میں سمت بھی تبدیل ہوگئی ۔ اب ہم جس منزل کی طرف رواں دواں تھے وہ منزل غیب میں چلی گئی اور ہمارے پاس کیا رہا ؟_ٹٹولنا اور ٹٹول کر قدم اٹھانا ۔یہی وجہ ہے کہ ایک کروڑ آدمیوں میں صرف ایک آدمی ایک قدم اٹھاتا ہے جو صحیح سمت میں اٹھتا ہے اور پیچھے نہیں ہٹتا۔واضح رہے کہ یہ تذکرہ ہے یقین اور شک کی درمیانی راہوں کا ہے۔اب رہی اکثریت کی بات تو اس کے دماغ کا محور وہم اور شک پر ہے۔یہی وہ وہم اور شک ہے جو اس کے دماغ کے خلیوں میں ہمہ وقت عمل کرتا رہتا ہے۔جس قدر اس میں شک کی زیادتی ہوگی اسی قدر وہ دماغی خلیوں(CELLS) میں ٹھوٹ پھوٹ واقع ہوگی۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ یہی وہ دماغی خلیے ہیں جن کے ذیر اثرتمام اعصاب  کا م کرتے ہیں اور اعصاب کی تحریکات ہی زندگی ہیں۔کسی چیز پر انسان کا یقین کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا  فریب کو جھٹلانا ۔اس کی مثال یہ ہے کہ انسان جو کچھ ہے خود کو اس کے خلاف پیش کرتا ہے۔وہ ہمیشہ اپنی کمزوریوں کو چھپا تا ہے اور ان کی جگہ مفروضہ خوبیاں بیان کرتا ہے جو اس کے اندر موجود نہیں ہیں۔


Topics


قلندرشعور

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب میں جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے قلندرکی تعریف  یہ بیان کی ہے کہ " یہ لوگ غرض ، طمع، حرص اورلالچ سے بے نیازہوتے ہیں ۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے میڈیم سے ہی چیزوں کو دیکھتے ، پرکھتے  اوراس کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں ۔کتاب قلندرشعور میں آپ نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ ہم کون سا طرزعمل اختیارکرکے ذہن کی ہر حرکت کے ساتھ اللہ کا احساس قائم کرسکتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں ذہن انسانی ، اللہ کی صفات کا قائم مقام بن جاتاہے ۔ 

روحانی علوم کے متلاشی خواتین وحضرات ، راہ سلوک کے مسافر عرفان حق کے طالب ، سائنسی علوم کے ماہر اورروحانی علوم کے مبتدی طلبا وطالبات کے لئے یہ کتاب مشعل راہ ہے ۔ قلندرشعورٹیکنالوجی عقل وشعور کی پرپیچ وادیوں میں سے گزار کر روحانی سائنس کے طلباء وطالبات کو شعوری دنیا سے اس پار(ماورائی عالم ) میں داخل کردیتی ہے ۔