Topics
سائنسداں جس مادی نظر یے کی تشہیر کر تے ہیں وہ یہ ہے کہ جب تک کسی چیز کا عملی مظا ہرہ (DEMONSTRATION)نہ ہو اسے تسلیم نہیں کیا جا سکتا ۔ سائنسداں بہت کچھ جا ننے کے با وجود یہ بھول جا تے ہیں کہ وہ مادی خول میں بند ہو کر خود اپنے نظر یے کی نفی کر رہے ہیں ۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں ایسا غیب جو آنکھ سے نظر نہ آئے کو ئی حقیقت نہیں رکھتا جبکہ ان کی ساری ترقی کا دارومدار نظر نہ آنے والی رو شنی پر ہے ۔
بانی قلندر شعور ، ابدال حق ، حسن اخریٰ محمد عظیم بر خیا قلندر بابا اولیا ء ؒ فر ما تے ہیں :
رُوحانی اقدار سے متعلق جتنے علوم ابھی تک زیر بحث آئے ہیں ان سب علوم میں کائنات جو مظاہر میں اہمیت رکھتی ہے وہ بعد کی چیز ہے ,پہلے مخفی اور غیب کو زیر غور لایا جاتا ہے اور غیب ہی کوسمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اگر مخفی اور غیب سمجھنے میں آسانی ہو جا ئے تو مظاہر کس طر ح بنتے ہیں ، مظاہر کے بننے اور تخلیق ہو نے کے قوانین کیا ہیں یہ ساری با تیں آہستہ آہستہ ذہن میں آنے لگتی ہیں ۔ اور فکر اس کو اسی طر ح محسوس کر تی ہے جس طرح بہت سی با تیں جو انسان کے تجر بے میں نو عمری سے ہوش کے زمانے تک آتی رہتی ہیں ان میں ایک خاص طر ح کا ارتباط رہتا ہے ۔ان تمام چیزوں کو جو غیب سے متعلق ہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن ِ پاک میں بہت سے نام دیئے ہیں اور انبیا ء نے ان ناموں کا تذکرہ کر کے ان اوصاف کو عوام کے سامنے پیش کیا ہے۔ قرآن پاک سے پہلے کی کتا بیں بھی ان چیزوں پر رو شنی ڈالتی ہیں لیکن ان کتابوں میں جستہ جستہ تذکرے ہیں ۔زیادہ تفصیلات قرآن پاک میں ملتی ہیں۔ قرآن پاک کی تفصیلات پر جب غور کیا جا تا ہے تو یہ اندازہ ہو تا ہے کہ غیب مظاہر سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے غیب کو سمجھنا ضروری ہے ۔ مذہب یا دین جس چیز کو کہتے ہیں وہ غیب ہی کہ (BASE) پر منحصرہے ۔ مظاہر کا تذکرہ مذہب میں ضرور آتا ہے لیکن یہ ثانویت رکھتا ہے ۔اس کو کسی دور میں اوٍلیت حاصل نہیں تھی ۔مادی دنیا اسے کتنی ہی اولیت دے ۔لیکن آہستہ آہستہ وہ بھی اسی طر ز پر سوچنے لگی ہے۔مثلاً موجودہ دور کے سائنس داں بھی غیب کو اولیت دینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ وہ کسی چیزکوفرض کرتے ہیں فرض کر نے کے بعد پھر نتا ئج اخذ کر نے کی کوشش میں لگ جا تے ہیں ۔ اور جب نتا ئج اخذ کر تے ہیں تو وہ ان تمام چیزوں کو حقیقی لازمی اور یقینی قرار دیتے ہیں جیسا کہ بیسویں صدی میں الیکٹران کا کردار زیر بحث ہے۔ الیکٹران کے بارے میں سائنسدانوں کی ایک ہی رائے ہے کہ وہ بیک وقت (AS A PARTICLE) اور (AS A WAVE) BEHAVE کرتا ہے۔اب غور طلب یہ ہےکہ جو چیز محض مفروضہ ہے وہ بیک وقت دو طرز پر عمل کرے اور اس کے عمل کو یقینی تسلیم کیا جائے وہ ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ الیکٹران کو نہ آج تک دیکھا گیا ہے اور نہ آئندہ اس کو دیکھنے کی امید ہے لیکن ساتھ ہی وہ الیکٹران کو اتنی ٹھوس حقیقت تسلیم کر تے ہیں جتنی ٹھوس کو ئی حقیقت اب تک نوع انسانی کے ذہن میں آسکی ہےیا نوع انسانی جس حقیقت سے اب تک روشناس ہو سکی ہے۔اب ظاہر ہے کہ صرف مفروضہ اس کے ذہن میں ہے اور مفروضہ سے چل کر وہ اس نتیجے پر ایسی منزل تک پہنچ جا تے ہیں جس منزل کو اپنے لئے ایجادات اور بہت زیادہ اہمیت کی اور کامیابی کی منزل قرار دیتے ہیں ۔اس اہم منزل کو وہ نوع انسانی کے عوام سے رو شناس کر نے کی کو شش میں لگے رہتے ہیں۔کئی مر تبہ ایسا ہو تا ہے جن حقائق کو وہ ایک مر تبہ حقائق کہہ کر پیش کر چکے ہیں چند سال کے بعد وہ ان حقائق کو رد کر دیتے ہیں ۔اور رد کر کے ان کی جگہ نئے طور اطوار ، نئے فارمولے لے آتے ہیں۔اور ان نئے فا رمولوں کو پھر ان ہی حقائق کا مرتبہ دیتے ہیں جن حقائق کا مرتبہ پہلے وہ ایک حد تک برسہا برس کسی بھی ایک ردشدہ چیز کو دے چکے تھے ۔ ظاہر ہے کہ غیب کی دنیا اس کے لئے اولیت رکھتی ہے حالانکہ وہ محض ما دہ پر ست ہیں خود کو ما دیت کی دنیا کا پر ستار کہتے ہیں ۔وہ ایک لمحے کو بھی یہ تسلیم کر نے کو تیا ر نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات یا غیب کی دنیا کو ئی چیز ہےیا کو ئی اولیت رکھتی ہے یااس کے کوئی معنی ہیں یا قابل تسلیم ہے یا اس کو نظر انداز کر نا منا سب نہیں ہے ۔اس قسم کے تصورا ت جن کو ما دیت کہنا چاہئے ان کے ارد گرد ہمیشہ جمع رہتے ہیں اور جب کبھی کسی غیب کا تذکرہ کیا جا تا ہے تو وہ ہمیشہ ایک ہی مطالبہ کرتے ہیں ۔جب تک کوئی DEMONSTRATION نہ کیا جائے اس وقت تک ہم کسی غیب سے متعارف ہو سکتے ہیں نہ کسی غیب سے متعلق یقین کر نے کواور یہ سمجھنے کو کہ غیب کو ئی خبر ہو سکتا ہے ہم تیار ہیں، یا یہ کہ ہم سائنس کی دنیا میں نظریہء غیب کے تذکرے کو کوئی جگہ دینے کے لئے آمادہ ہیں۔ بہر کیف وہ جس طرح بھی کہتے ہیں ۔یہ تو صرف طرز فکر ہے اور طرز گفتگو ہے لیکن عملی دنیا میں اور تفکر کی عملی منزل میں وہ ا س مقام پر ہیں جس مقام پر کہ ایک آدمی غیب پر یقین کر نے والا اللہ کی ذات کو پیش کر تا ہے۔ اور ان تمام ایجنسیوں کو تسلیم کر تا ہے جن کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں کیا ہے ۔اور وہ ایجنسیاں جو شرطِ ایمان ہیں اور کسی ایسے شخص پر جو اللہ کو مانتا ہے اپنا تسلط رکھتی ہیں اور ان تمام ایجنسیوں اور ان تمام ہستیوں کو وہ ایسی زندہ حقیقت اور ایسی ٹھوس معنویت تسلیم کر تا ہے جیسے کہ مادہ پرست کسی پتھر کی یا معدنی یا کسی ایسے مظاہر کے متعلق چیز کو تسلیم کر تے ہیں جو ان کے سامنے بطور مشاہدے کے ہمہ وقت موجود رہتی ہے اور جس کو یہ چھوتے ، چکھتے ، دیکھتے اور سمجھتے ہیں۔ جس کے متعلق وہ یہ کہتے ہیں کہ اس میں تغیر ہے، اس میں توازن ہے ،اس میں ایک امتزاج ہے ، اس میں تا ثر ہے، اس میں قوت ہے او ر جس قسم کی ما دیت کی دنیا میں دیکھتے ہیں ان تمام چیزوں کا وہ اسی طر ح تذکرہ کر تے ہیں اور ان پر ایک خاص طرز سے ایمان رکھتے ہیں ۔دو سرے الفاظ میں یہ کہنا چا ہتا ہوں کہ ایک خدا کا پر ستار جس طرح غیب پر ایمان رکھتا ہے بالکل اسی طرح مادے کا پرستار مادیت کی دنیا کا یقین رکھتا ہے ۔ نہ خدا پر ست کو غیب کی دنیا پر ایمان رکھے بغیر چا رہ ہے نہ مادیت پر ست کو مادہ پر ایمان لا ئے بغیر مفر ہے ۔ دونوں ایک نہ ایک طرز رکھتے ہیں اور اس میں یہ چیزمشترک ہے ان طر ز پر ان کا ایمان اور ایقان ہو تا ہے ۔ اس ایمان اور ایقان کو یہ زندگی کہتے ہیں ۔ اصل میں کہنے کی بات یہ ہے کہ کو ئی زندگی بغیر ایمان اور ایقان کے نا ممکن ہے ۔ خواہ کسی خدا پر ست کی زندگی ہو یا مادہ پرست کی۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب میں جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے قلندرکی تعریف یہ بیان کی ہے کہ " یہ لوگ غرض ، طمع، حرص اورلالچ سے بے نیازہوتے ہیں ۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے میڈیم سے ہی چیزوں کو دیکھتے ، پرکھتے اوراس کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں ۔کتاب قلندرشعور میں آپ نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ ہم کون سا طرزعمل اختیارکرکے ذہن کی ہر حرکت کے ساتھ اللہ کا احساس قائم کرسکتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں ذہن انسانی ، اللہ کی صفات کا قائم مقام بن جاتاہے ۔
روحانی علوم کے متلاشی خواتین وحضرات ، راہ سلوک
کے مسافر عرفان حق کے طالب ، سائنسی علوم کے ماہر اورروحانی علوم کے مبتدی طلبا
وطالبات کے لئے یہ کتاب مشعل راہ ہے ۔ قلندرشعورٹیکنالوجی عقل وشعور کی پرپیچ
وادیوں میں سے گزار کر روحانی سائنس کے طلباء وطالبات کو شعوری دنیا سے اس پار(ماورائی عالم ) میں داخل
کردیتی ہے ۔