Topics

زندگی ایک اطلاع ہے

عام مشاہدے کی رُو  سے زندگی گزارنے کی جو طر زیں موجود ہیں یا ہرآدمی زندگی کی جن طرز وں میں سفر کر تا ہے وہ دو ہیں ایک طرز یہ ہے کہ وہ شعور ی حواس میں زندگی کے تمام تقاضے پو رے کر تا ہے لیکن ساتھ ساتھ ہر تقاضا پو را کر نے کے لئے اسے جسمانی طور پر محنت اور جدو جہد کر نا پڑتی ہے جب تک جسمانی اعضا اپنا وظیفہ پو را نہیں کر تے اس وقت تک تقاضے کی تکمیل نہیں ہو تی۔جسمانی اعضا سے مراد ہا تھ ، پیر ، کان ، ناک ، آنکھیں وغیر ہ وغیرہ ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ ہم اس بات سے بھی قطع نظر نہیں کر سکتے کہ جسمانی اعضا دماغ کے تا بع ہیں ۔ دماغ جب تک محرک نہیں ہو تا ۔ اعضا میں حرکت نہیں ہو تی اور دماغ کی حر کت خیال کے تا بع ہے ۔ جب تلک دماغ کے اندر کو ئی خیال وارد نہیں ہو تا اس وقت تک دماغ جسمانی اعضاءکوکو ئی حکم نہیں دیتا کو ئی تر غیب(INSPIRATION) نہیں دیتا ۔ 

خیال کیا ہے ؟خیال دراصل تقاضوں کو پو را کر نے کے لئے ایک اطلاع ہے۔ مثلاً دماغ بتا تا ہے ا ب سو جا ؤ اس لئے کہ مزید جا گنا جسم کے لئے مناسب نہیں ہے ۔ اب دماغ کہتا ہے کہ اب بیدار ہو جا ؤ اس لئے کہ اس سے زیادہ سو نا جسمانی کار کر دگی کے لئے مضر ہے ۔ دماغ کہتا ہے کہ کھا نا کھا ؤ اگر کھا نا نہیں کھا یا گیا تو زندگی میں ایندھن بننے والی کیلو ریز ختم ہو جا ئیں گی ۔ علیٰ ہذ القیاس زندگی کے تمام تقاضے پو رے کر نے کے لئے دماغ احکامات صادر کر تا رہتا ہے ۔ اور ان احکامات کی پیروی پو را جسم کر تا ہے ۔ دماغ جو احکامات دیتا ہے اس کا تعلق اطلاع سے ہے لیکن دماغ کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ یہ اطلا ع کہاں سے آرہی ہے ۔دماغ صرف اس حد تک با خبر ہے کہ اسے اطلاع ملتی ہے وہ اطلاع میں جسمانی تقاضوں کے تحت معنی پہنا دیتا ہے اور معنی پہنا کر جسم کے اندر جو مشین فٹ ہے اس کو اطلاع دیتا رہتا ہے ۔ مشین اس پر عمل درآمد کر نے پر مجبور ہے حقیقت یہ ہے کہ زندگی کے تقاضوں کی اصل بنیاد اطلاع ہے اطلاعات میں معنی پہنانے کی دو طرزیں ہیں ایک طر ز میں حواس زمان و مکاں کے پا بند ہیں۔ لیکن دو سری طر ز میں حواس معنی پہنانے میں زمان و مکان کی حد بندو یوں سے آزاد ہیں جس طر ح جسمانی اعضا کو کنڑول کر نے کے لئے جسم کے اندر ایک دماغ ہے اور وہ دماغ اطلاعات قبول کر کے اس میں معانی پہنا تا ہے اسی طرح رُو حانی  دماغ جن اجزائے تر کیبی  سےمر کب ہے ، یہ اجزائے تر کیبی زمان و مکان سے آزاد ہیں ۔ 

مثال : جسمانی دماغ ہمیں یہ اطلاع دیتا ہے کہ جسم کو انر جی حاصل کر نے کے لئے روٹی کھا نے کی ضرورت ہے ۔ ہم جب اس اطلاع کی تکمیل کر تے ہیں تو ہمیں تواتر اور تسلسل کے ساتھ کئی حد بندیوں سے گزرنا پڑتا ہے ۔ مثلاً ہم گندم بو ئیں گے اس کی حفا ظت کر کے اس کو پروان چڑھا ئیں گے پھر اس کو کاٹ کر با لیوں میں سے الگ کریں گے پھر چکی پر پسوائیں گے ۔ پھر آٹا گو ند کر روٹی پکا ئیں گے اور پھر رو ٹی کھا ئیں گے یہ جسمانی دماغ کی اطلاع میں معنی پہنانے کا عمل ہے اس کے بر عکس رُو حانی  دماغ جب ہمیں کسی چیز کے کھا نے کی اطلاع ا فراہم کر تا ہے تو ہمیں ان تمام حد بندیوں سے گزرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی جیسے ہی رُو حانی  دماغ میں یہ اطلاع آئی کہ کچھ کھا نا چا ہئے ساتھ ہی اطلاع میں یہ معانی پہنا ئے گئے کہ رو ٹی کھا نی چاہئے ۔ اور فو راً ہی اس کی تکمیل ہو گئی ۔ گندم بو نا ، کا ٹنا ، پیسنا ، اور رو ٹی پکا نا سب با تیں حذف ہو گئیں ۔ رُو حانی  دماغ خواب میں کا م کر تا ہے اور مشق کے بعد مراقبہ بن جا تا ہے ۔ جس طر ح کو ئی آدمی رُو حانی  دماغ کی اطلاع قبول کر کے وسائل کی محتاجی کے بغیر روٹی کھا لیتا ہے اسی طر ح کو ئی بندہ جو مراقبے کے عمل سے واقف ہے یا اس کے اندر رُو حانی  دماغ متحرک ہو گیا ہے تو اس کے ا ندر سے زمان و مکان کی گر فت ٹوٹ جا تی ہے ۔ جس طر ح بیداری میں رو ٹی کھا نے کے لئے مختلف مدارج سے گزرنا پڑتا ہے ۔ مثلاً ہمیں کراچی سے لندن جا نا ہے گھر سے با ہر نکلیں گے رکشہ یا ٹیکسی میں بیٹھ کر ائیر پو رٹ پہنچیں گے ۔ ہوائی جہاز میں سوا ر ہو نگے اور فضا میں تیرتے ہو ئے لندن پہنچیں گے ۔ لیکن یہی سفر ہم مراقبہ کی حالت میں کر یں تو نہ گھر سے با ہر نکلنے کی ضرورت ہو گی نہ ٹیکسی رکشے کی حا جت پیش آئے گی اور نہ ہوا ئی جہاز میں بیٹھنا عمل میں آئے گا ۔ مراقبہ میں انسان خیال کی رفتار سے سفر کرتا ہے مثلاً یہ کہ کر کراچی میں بیٹھے ہو ئے آدمی نے اس بات کا ارادہ کیا کہ مجھے دہلی جا نا ہے اور وہ سیکنڈ کے ہزارویں حصہ میں وہاں پہنچ جا تا ہے اس کی مثال ہر آدمی کے اوپر خواب میں گزرتی ہے ۔ ایک آدمی کراچی میں خواب دیکھتا ہے کہ وہ دہلی میں ہے وہ دہلی میں خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ کے مزار پر مراقبہ کر رہا ہے ۔ 

دہلی کی فضا سے پو ری طر ح با خبر اور متا ثر ہے گھر کے کسی آدمی نے پیر ہلا دیا ۔ اب وہ کراچی میں موجود ہے ۔


Topics


قلندرشعور

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب میں جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے قلندرکی تعریف  یہ بیان کی ہے کہ " یہ لوگ غرض ، طمع، حرص اورلالچ سے بے نیازہوتے ہیں ۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے میڈیم سے ہی چیزوں کو دیکھتے ، پرکھتے  اوراس کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں ۔کتاب قلندرشعور میں آپ نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ ہم کون سا طرزعمل اختیارکرکے ذہن کی ہر حرکت کے ساتھ اللہ کا احساس قائم کرسکتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں ذہن انسانی ، اللہ کی صفات کا قائم مقام بن جاتاہے ۔ 

روحانی علوم کے متلاشی خواتین وحضرات ، راہ سلوک کے مسافر عرفان حق کے طالب ، سائنسی علوم کے ماہر اورروحانی علوم کے مبتدی طلبا وطالبات کے لئے یہ کتاب مشعل راہ ہے ۔ قلندرشعورٹیکنالوجی عقل وشعور کی پرپیچ وادیوں میں سے گزار کر روحانی سائنس کے طلباء وطالبات کو شعوری دنیا سے اس پار(ماورائی عالم ) میں داخل کردیتی ہے ۔