Topics
ہم جب اللہ کی تخلیق پر غور کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ باوجود اس کے کہ میٹر (MATTER) ایک ہے، تخلیقی قاعدے ضابطے اور طریقے ایک ہیں ، مخلوق کے اندر طبعی تقاضے یکساں ہیں ،عقل و شعور سب میں ہے، یہ الگ بات ہے کہ کسی میں شعور زیادہ ہے، کسی میں کم ہے، کسی میں بہت کم ہے۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ہر تخلیق کی انفردیت اپنی جگہ قائم ہے۔انفرادیت کے (۲) رخ ہیں ۔ ایک رُخ اجتماعی حیثِت رکھتا ہے اور دوسرا رُخ الگ اور منفرد شخصیت کے روپ میں موجود ہے۔ اجتماعی رُخ کو ہم "نوع " کا نام دیتے ہیں اور انفرادی رُخ کو ہم "فرد" کہتے ہیں ۔ہر نوع کا ہر فرد الگ ایک حیثیت ، شکل و صورت رنگ و روپ اور نقش و نگار رکھتا ہے۔ طوطے کی نوع کے تما م افراد کی شکل ایک ہے۔ کبوتر کی نوع کے افراد کی شکل و صورت ایک ہے۔ اسی طرح اللہ کی جتنی بھی مختلف مخلوقات ہیں وہ نوعی اعتبار سے جو شکل و صورت رکھتی ہیں وہی شکل و صورت ایک ہے۔ اسی طرح اللہ کی جتنی بھی مختلف مخلوقات ہیں وہ نوعی اعتبار سے جو شکل وصورت رکھتی ہیں وہی شکل و صورت انفرادی ہے۔ یہ بات ایسی ہے کہ اس میں زیادہ تفکر اور تدبیر کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ انسانی مشاہدات ہر وقت اس صورتِ حال سے آشنا ہیں۔
نوعی تنوع پر غور ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ نوع کا مختلف ہونا اس بات کی علامت ہے کہ نوع کے خدو خال میں معین مقداریں کام کر رہی ہیں۔ بکری کی نوع میں اللہ نے جو معین مقداریں رکھ دی ہیں وہ جب متحرک ہوتی ہیں تو اس کے نتیجہ میں بکری کی تخلیق ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ بکری کے پیٹ سے کبوتر پیدا ہو جائے ۔ یہ معین مقداریں نہ صرف زمین کے اوپر موجود مخلوق میں نظر آتی ہے بلکہ کائنات کی ہرتخلیق کے ہر جزو میں یہ مقداریں کام کررہی ہیں ۔ ان مقداروں کا اہم کا م یہ ہے کہ جب آپس میں ردوبدل ہو تی ہیں یا ان کا آپس میں ایک دوسرے سے انجذاب ہو تا ہے تو مختلف رنگ اختیار کر لیتی ہیں اور یہ رنگ ہی دراصل کسی نوع کے خدوخال بن جا تے ہیں ۔
قلندر بابا اولیا ء ؒ نے تخلیقی فارمولوں کی وضا حت اس طر ح کی ہے ۔
’’کائنات میں موجود تمام ما دی اجسام لاشمار رنگوں میں سے متعدد رنگوں کا مجموعہ ہو تے ہیں ۔ یہ رنگ نسمہ کی مخصوص حرکات سے وجود میں آتے ہیں ۔ نسمہ (AURA)کی معین طوالتِ حرکت سے ایک رنگ بنتا ہے ۔ دوسری طوالتِ حرکت سے دوسرا رنگ ۔ اس طر ح نسمہ کی لا شمار طوالتوں سے لاشمار رنگ وجود میں آتے رہتے ہیں ۔ ان رنگوں کا عددی مجموعہ ہر نوع کے لئے الگ الگ معین ہے۔ اگر گلاب کے لئے رنگو ں کا عددی مجموعہ "الف" معین ہے تو "الف" عددی مجموعہ سے ہمیشہ گلاب ہی وجود میں آئے گا۔ کوئی اور شے وجود میں نہیں آئے گی۔ اگر آدمی کی تخلیق رنگوں کی 'جیم' تعداد سے ہوتی ہے تو اس مقدار سے دوسرا حیوان نہیں بن سکتا، صرف نوع ِ انسانی ہی کے افراد وجود میں آسکتے ہیں۔
عالم ِ رنگ میں جتنی اشیاء پائی جاتی ہیں وہ سب رنگیں روشنیوں کا مجموعہ ہیں۔ ان ہی رنگوں کے ہجوم سے وہ شے وجود میں آتی ہے ، جس کو عرفِ عام میں "مادّہ" کہا جاتاہے۔ جیسا کہ سمجھا جاتا ہے کہ مادہ کوئی ٹھوس چیز نہیں ہے، اگر اس کو شکست و ریخت کر کے انتہائی مقداروں تک منتشر کر دیا جائے تو محض رنگوں کی جُدا گانہ شعاعیں باقی رہ جائیں گی۔ اگر بہت سے رنگ لے کر پانی میں تحلیل کر دیئے جائیں تو ایک خاکی مرکب بن جائے گا ۔ جس کو ہم مٹی کہتے ہیں۔ گھاس، پودوں اور درختوں کی جڑیں پانی کی مدد سے مٹی کے ذرات کی شکست و ریخت کر کے ان ہی رنگوں میں سے اپنی نوع کے رنگ حاصل کرلیتے ہیں۔ وہ تمام رنگ ، پتی اور پھول میں نمایاں ہو جاتے ہیں۔ تمام مخلوقات اور موجودات کی مظہری زندگی اس ہی کیمیائی عمل پر قائم ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب میں جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے قلندرکی تعریف یہ بیان کی ہے کہ " یہ لوگ غرض ، طمع، حرص اورلالچ سے بے نیازہوتے ہیں ۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے میڈیم سے ہی چیزوں کو دیکھتے ، پرکھتے اوراس کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں ۔کتاب قلندرشعور میں آپ نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ ہم کون سا طرزعمل اختیارکرکے ذہن کی ہر حرکت کے ساتھ اللہ کا احساس قائم کرسکتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں ذہن انسانی ، اللہ کی صفات کا قائم مقام بن جاتاہے ۔
روحانی علوم کے متلاشی خواتین وحضرات ، راہ سلوک
کے مسافر عرفان حق کے طالب ، سائنسی علوم کے ماہر اورروحانی علوم کے مبتدی طلبا
وطالبات کے لئے یہ کتاب مشعل راہ ہے ۔ قلندرشعورٹیکنالوجی عقل وشعور کی پرپیچ
وادیوں میں سے گزار کر روحانی سائنس کے طلباء وطالبات کو شعوری دنیا سے اس پار(ماورائی عالم ) میں داخل
کردیتی ہے ۔